امریکہ کی سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی نے جمعرات کو سپریم کورٹ کے ججز کے لیے سخت اخلاقی معیارات کی پاسداری سے متعلق قانون سازی کی منظوری دے دی ہے۔
ججز کے اخلاقیات سے متعلق اس قانون سازی کا سینیٹ سے منظور ہونے کا بہت کم امکان ہے۔بل کو ری پبلکنز کی متحدہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جن کا کہنا تھا کہ یہ عدالت کو 'تباہ' کر سکتا ہے۔ سینیٹ سے منظوری کے لیے بل کو ری پبلکنز کے کم از کم نو ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔
لیکن ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ ججز کے اخلاقیات سے متعلق انکشافات جس رفتار سے ہورہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالت کے لیے قابلِ نفاذ معیارات ضروری ہیں۔
جوڈیشری کمیٹی کے پینل نے پارٹی کے خطوط پر عدالت کے لیے اخلاقیات کے اصول طے کرنے اور ان کے نافذ کے لیے ووٹ دیا، جس کی رو سے کسی جج کو کیس سے الگ کرنا ، تحائف اور مفادات کے ممکنہ تصادم کے بارے میں شفافیت کے لیے نئے معیارات شامل ہیں۔
سینیٹ کی عدلیہ کمیٹی کی طرف سے منظور شدہ قانون سازی کے تحت سپریم کورٹ کو اخلاقیات کے زیادہ سخت معیارات کی پاسداری کرنا ہو گی,یہ اقدام ان حالیہ انکشافات کے ردعمل میں کیا گیا جو ججوں کی جانب سے ڈونرز سے مراعات حاصل کرنے کے بارے میں ہیں۔
ڈیموکریٹس نے اس قانون سازی کو سال کے شروع میں آنے والی ان رپورٹس کے بعد آگے بڑھایا تھا جن کے مطابق جسٹس کلیئرنس تھامس اور ری پبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے ڈونر ہارلن کرو کے درمیان جائیداد کا لین دین ہوا، لیکن جسٹس تھامس نے اس ڈیل کے بارے میں کبھی اطلاع نہیں دی۔
جسٹس تھامس سپریم کورٹ کے نو ججوں میں سب سے زیادہ عرصے سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
نیوز آؤٹ لیٹ’پرو رپبلیکا‘ میں ایسی رپورٹس شائع ہوئی تھیں جن میں جسٹس تھامس اور ٹیکساس کی کاروباری شخصیت ہارلن کرو کے تعلقات کی تفصیلات بتائی گئی تھیں جن کے مطابق جسٹس تھامس کے رئیل اسٹیٹ کی خریداری کے علاوہ ایسے پرتعیش سفر شامل تھے جن کے لیے ادائیگی ہارلن کرو نے کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے ڈیموکریٹک چیئرمین ڈک ڈربن نے ججوں کے بارے میں اخلاقی ضوابط سے متعلق ممکنہ اصلاحات پر بات کرنے کے لیےچیف جسٹس جان رابرٹس سے کہا تھا کہ وہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوں۔تاہم چیف جسٹس نے عدالت کی اخلاقیات کے بارے میں کمیٹی کے سامنے گواہی دینے سے انکار کر دیاتھا۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی اس طرح کی پیشیاں شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں اور ان سے امریکی حکومت کی تینوں برانچز کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے بارے میں تشویش پیدا ہونےکا خدشہ ہے۔
اس کے بعد سے، نیوز رپورٹس میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ جسٹس سیموئیل الیٹو نے ایک ری پبلکن ڈونر کے ساتھ لگژری تعطیلات گزاری تھیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے گزشتہ ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ جسٹس سونیا سوٹومائیر نےپچھلی دہائی کے دوران، اپنے عملے کی مدد سے، کالج کے دوروں کے ذریعے اپنی کتابوں کی فروخت میں اضافہ کیا ہے۔
SEE ALSO: ذاتی دوستوں کی ’مہمان داری‘ کو ریکارڈ پر لانا ضروری نہیں تھا، جسٹس تھامسسینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے چیئرمین ڈک ڈربن کا کہنا ہے کہ ججز سے متعلق قانون سازی، عدالت پر اعتماد بحال کرنے کے لیے ایک "اہم پہلا قدم" ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر کمرے میں موجود سینیٹرز میں سے بھی کوئی ایسی ہی سرگرمیوں میں ملوث ہوگا تو وہ اخلاقیات کے قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ قانون سازی عدلیہ کمیٹی میں برسوں کی بڑھتی ہوئی کشیدگی، اور پارٹی بازی کے بعد سامنے آئی ہے۔گزشتہ انتظامیہ میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے لیے تین قدامت پسند ججوں کو نامزد کیاتھا جس کی ڈیموکریٹس کی جانب سے مخالفت کی گئی تھی اور ان میں سے سبھی کی تصدیق اس وقت ہوئی جب ری پبلکن سینیٹ میں اکثریت میں تھے۔
اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کی منتقلی تیزی سے دائیں جانب ہو گئی اور اسقاط حمل کے ملک گیر حق اور دیگر لبرل ترجیحات کو ختم کر دیا گیا۔
یہ رپورٹ ایسو سی ایٹڈ پریس کی فراہم کردہ اطلاعات پر مبنی ہے۔