قرآن کی تعلیم، مسودہٴ قانون سینیٹ کی کمیٹی سے منظور

(فائل)

پاکستان کی قومی اسمبلی پہلے ہی اس بل کو منظور کر چکی ہے، جس کے تحت پہلی سے پانچویں جماعت کے طلباء کو صرف ناظرہ قرآن پڑھایا جائے گا، جبکہ چھٹی سے بارہویں تک ترجمہ کے ساتھ قرآن کی تعلیم کا اہتمام کیا جائے گا

پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی ایک کمیٹی نے تعلیمی اداروں میں مسلمان طلبا کے لیے قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کا مسودہ قانون منظور کر لیا ہے۔

اس بل کا اطلاق وفاق کے زیر انتظام اور اسلام آباد کی حددو میں واقع تمام سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں پر ہوگا۔

پاکستان کی قومی اسمبلی پہلے ہی اس بل کو منظور کر چکی ہے جس کے تحت پہلی سے پانچویں جماعت کے طلبا کو صرف ناظرہ قرآن پڑھایا جائے گا، جبکہ چھٹی سے بارہویں تک ترجمہ کے ساتھ قرآن کے تعلیم کا اہتمام کیا جائے گا۔

اگرچہ مسلمان بچوں کو گھروں میں قرآن کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے لیے کئی مدرسے بھی کام کر رہے ہیں۔ تاہم، اس کے باوجود بعض حلقوں کے طرف سے یہ مطالبہ سامنے آتا رہا کہ مسلمان بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کا اہتمام سرکاری سطح پر کیا جائے۔

ملکی قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کے لیے قائم کے گئے مشاورتی ادارے ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کے سابق رکن مولانا طاہر اشرفی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اس مجوزہ بل کو اہم پیش رفت قرار دیا۔

مولانا اشرفی نے مزید کہا کہ اگر دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی حکومت سے بچوں کو مذہبی تعلیم کا بندوبست اسکولوں میں کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں بھی یہ سہولت فراہم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کے بقول، ’’اس سے ایک اچھا تاثر بھی قائم ہوگا‘‘۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ "جس طرح یورپ کے بعض ملکوں میں (اسکولوں میں) اسلام کی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے اگرچہ وہاں اسلام ریاست کا مذہب نہیں ہے اور اگر یہاں کوئی مطالبہ کرتا ہے کہ اسے اپنی (مذہبی) کتاب پڑھنی ہے تو اگر وہ مسیحی ہو یا کوئی اور، اسے یہ سہولت فراہم کرنے میں کیا حرج ہے۔"

پاکستان کے آئین کے تحت ملک میں آباد تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کے مطابق نہ صرف زندگی گزرانے کا حق حاصل ہے، بلکہ وہ بچوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کے لیے ادارے بھی قائم کر سکتے ہیں۔