ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کالعدم: 'عدالت کو پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے'

فائل فوٹو

پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) میں اکثریتی اتحاد کے پارلیمانی رہنماؤں نے سپریم کورٹ ریویوز آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

سینیٹ میں اکثریتی اتحاد کا اتوار کو جاری بیان میں کہنا تھا کہ آئین میں ریاستی اداروں کے اختیارات کی تقسیم واضح ہے۔ قانون سازی صرف اور صرف پارلیمان کا اختیار ہے۔

بیان کے مطابق عدالت کا یہ کہنا کہ سپریم کورٹ کے قواعد پارلیمان کی قانون سازی سے مقدم ہیں، غیر آئینی اور افسوسناک ہے۔

’’عدالت کو پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘

سپریم کورٹ نے جمعے کو ’ریویوز آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023‘ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پارلیمنٹ نے یہ ایکٹ اختیارات سے تجاوز کر کے بنایا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریویوز آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسے آئین سے متصادم قرار دیا تھا۔

اعلیٰ عدالت نے 19 جون کو ریویوز آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے جمعے کو جاری کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ایک روز قبل ہی قومی اسمبلی تحلیل ہوئی تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

عدالتی نظرثانی کا قانون کالعدم: نواز شریف کی نا اہلی زیرِ بحث کیوں؟

‏چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں اس ایکٹ کو کالعدم قرار دیا۔

سینیٹ میں اکثریتی اتحاد کے پارلیمانی رہنماؤں کی طرف سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے ایک روز بعد کئی ہفتوں سے محفوظ فیصلہ سنانا بھی حیران کن ہے۔

پارلیمانی پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ ان کی رائے میں ایسے فیصلے پارلیمان کی آزادی اور خود مختاری کو متاثر کرتے ہیں۔

ریویوز آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کیا ہے؟

ریویوز آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ میں آئین کی شق 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کی جانب سے کیے گئے تمام فیصلوں پر لارجر بینچ کے سامنے اپیل کی صورت میں نظرِ ثانی کی درخواست دائر کرنے کا حق دیا گیا تھا۔

کیا نواز شریف دوبارہ سیاست کر سکیں گے؟

الیکشن ایکٹ میں 62 ون ایف کی مدت کے تعین کے بعد کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف دوبارہ سیاست میں حصہ لے سکتےتھے۔

بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس وقت نواز شریف کو سزا سنائی گئی تھی اس وقت 62 ون ایف کی تشریح مکمل نہیں تھی اور عدالت نے انہیں تاحیات نااہلی کی سزا سنائی تھی، ریویوز آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کو کالعدم قرار دینے سے نوازشریف کی امید دم توڑ گئی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: آج سپریم کورٹ میں کیا ہوا؟

سابق وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اس بات سے متفق ہیں کہ الیکشن ایکٹ کے تحت نواز شریف کی نااہلی کی مدت پانچ سال ہے اور وہ مکمل ہو چکی ہے لہذا نواز شریف پر اس فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

نجی ٹی وی 'جیو نیوز' سے بات کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ اگر عدالتیں پارلیمان کے اختیار میں مداخلت کریں گی تو اس سے ادارے کمزور ہوں گے۔

'نواز شریف کے لیے اپیل کا حق ختم ہو گیا ہے'

سینئر وکیل شعیب شاہین کہتے ہیں کہ نواز شریف کو اس ایکٹ کی وجہ سے اپیل کا جو حق مل رہا تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے اور نواز شریف کی نااہلی برقرار ہے کیوں کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں تاحیات نااہلی لکھا ہے اور اگر یہ ایکٹ برقرار رہتا اور اس میں اپیل دائر کی جاتی تو ہی ان کو کچھ فائدہ ہو سکتا تھا۔

پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کردہ اس ایکٹ میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار مفادِ عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کے لیے بڑھایا گیا ہے اور مفاد عامہ کے مقدمات کی نظرثانی کو اپیل کے طور پر سنا جائے گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟

اس قانون کے مطابق نظرِثانی کی سماعت کرنے والے بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس کی سماعت کرنے والے ججوں سے زیادہ رکھنا تجویز کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ نظر ثانی میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔

قانون میں کہا گیا تھا کہ ایکٹ کا اطلاق آرٹیکل 184 تین کے پہلے کے تمام مقدمات پر ہوگا اور متاثرہ فریق ایکٹ کے اطلاق کے 60 دنوں میں اپیل دائر کر سکے گا اور ایکٹ کا اطلاق ملتے جلتے قانون، ضابطے، یا عدالتی نظیر کے باوجود ہر صورت ہو گا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے اس قانون کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد ایک بحث شروع ہو گئی ہے کہ پارلیمان کی جانب سے کی گئی قانون سازی کو عدالت کی طرف سے کالعدم قرار دینے سے پارلیمان کے اختیا رات پر حرف آ سکتا ہے۔