پاکستان کے سینیٹ (ایوان بالا) کے اراکین نے امریکی سفارت کار ایلس ویلز کے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق تنقیدی بیان کو ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم سے وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔
سینیٹ میں نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے نیشنل پارٹی(این پی) کے میر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ گزشتہ ادوار میں پارلیمان کو بتایا گیا کہ چین کے ساتھ شراکت داری کسی بھی اور ملک کے ساتھ تعلقات سے مبرا ہے اور شہد سے میٹھی، سمندر سے گہری، پہاڑ سے اونچی کے بیانات دہرائے گئے۔
میر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد وفاقی وزرا نے سی پیک اور چین سے متعلق تنقیدی بیانات دیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے پر امریکہ اور وفاقی وزرا کا بیانیہ ایک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی سفارت کار کے اسلام آباد میں سی پیک سے متعلق تنقیدی بیان پر دفتر خارجہ نے چپ سادھ لی جب کہ چین کے سفیر کو اس کا جواب دینے کے لیے سامنے آنا پڑا۔
واضح رہے کہ ایلس ویلز نے اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک سے خطاب میں کہا تھا کہ ورلڈ بینک کی جانب سے بلیک لسٹ کی گئی کمپنیوں کو سی پیک میں ٹھیکے ملے ہیں۔ سی پیک منصوبوں میں شفافیت نہیں جب کہ پاکستان کا قرض چینی فنانسنگ کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں چین کے سفارت خانے نے امریکی سفارت کار کے سی پیک کے حوالے سے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایلس ویلز کے منفی بیان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ امریکہ سفارت کار کا یہ بیان کہ سی پیک پاکستان دشمن پروگرام ہے، ملک کے داخلی امور میں مداخلت کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایلس ویلز نے سی پیک کے حوالے سے جن بلیک لسٹ کمپنیوں کا ذکر کیا وہ عالمی بینک نہیں بلکہ امریکہ کی طرف سے بلیک لسٹ کی گئی ہیں۔
مشاہد حسین نے کہا کہ امریکہ نے تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ساتھ سال تک بلیک لسٹ کیے رکھا تھا۔
' ہر ملک سے اچھے تعلقات رکھنے کے خواہاں'
تحریک انصاف کے سینیٹر اور قائد ایوان سینیٹ شبلی فراز نے نقطہ اعتراض کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہر ملک سے اچھے تعلقات رکھنے کا خواہاں ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی کا یہ اصول وضع کر چکے ہیں کہ کسی ایک کیمپ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
شبلی فراز نے کہا کہ چین ہمارا دیرینہ دوست ہے جو ہر مشکل وقت میں بھی ہمارے ساتھ کھڑا رہا۔ پاک چین دوستی پر قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
شبلی فراز نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے سب پر واضح کیا ہے کہ چین اس وقت ہمارے ساتھ کھڑا ہوا جب کوئی پاکستان میں سرمایہ کاری کو تیار نہیں تھا۔
قائد ایوان سینیٹ کا کہنا تھا کہ چین اور سی پیک سے متعلق سینٹرز کے اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب کے لیے وہ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سے ایوان میں آکر جواب دینے کا کہیں گے۔
خیال رہے کہ ایلس ویلز نے دورہ پاکستان کے دوران تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے سی پیک پر تنقید کرتے ہوئے اسلام آباد سے اس میں شمولیت کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا کہا تھا۔
'پاکستان کشمیر پالیسی میں تبدیلی لا رہا ہے؟'
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے وزیر اعظم کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات میں کئی گئی گفتگو پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے کشمیر کے بجائے افغانستان کو ترجیحی معاملہ کیسے قرار دے دیا۔
انہوں نے وزیراعظم کے بیان پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا پاکستان کشمیر پالیسی میں تبدیلی لا رہا ہے؟
شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے اہم معاملہ افغانستان کا ہے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ڈیوس کے بڑے فورم پر کشمیر پالیسی شفٹ کی بات کر دی لیکن پارلیمان کو ایسی کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ پارلیمان کا حق ہے کہ اسے اس پالیسی شفٹ سے متعلق آگاہ کیا جائے۔
انہوں نے وزیر اعظم سے پارلیمان میں آکر وضاحت دینے کا مطالبہ کیا۔
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے معاملے پر امریکہ اور پاکستان ایک صفحے پر ہیں جبکہ افغانستان میں قیام امن ہماری پہلی ترجیح ہے۔