امریکہ کی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز اتوار کو چار روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئی ہیں۔ دورہ پاکستان میں ایلس ویلز حکومتی و عسکری حکام اور سول سوسائٹی کے ارکان سے ملاقاتیں کریں گی جس میں علاقائی صورت حال اور دوطرفہ امور زیرِ غور آئیں گے۔
ایلس ویلز 13 جنوری سے اس خطے کے سہ ملکی دورے پر ہیں اور سری لنکا و بھارت کے دورے کے بعد اسلام آباد پہنچی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیان کے مطابق ایلس ویلز 22 جنوری تک پاکستان کے دورے پر رہیں گی۔ اس دوران وہ اعلیٰ پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کریں گی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق امریکی وفد کے ساتھ ملاقاتوں میں پاکستان اور امریکہ تعلقات کے علاوہ افغان مفاہمتی عمل پر پیش رفت کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
دفتر خارجہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی قیادت ایلس ویلز کے ساتھ تنازع جموں و کشمیر اور اس حوالے سے بھارت کے یک طرفہ اقدامات کا معاملہ اٹھائے گی۔
پاکستانی حکام امریکی وفد پر زور دیں گے کہ بھارت کی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کرفیو جیسی پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
خیال رہے کہ ایلس ویلز کشمیر کے معاملے پر آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ حال ہی میں بھارت کے دورے سے قبل انہوں نے کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے اس مسئلے پر امریکہ کا موقف تبدیل نہیں ہوا۔
اپنے بیان میں ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں صورت حال خراب ہے۔ وہاں نوجوانوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان تصادم معمول ہے۔
پاکستانی حکام امریکی وفد کے ساتھ ملاقاتوں میں بھارت میں متنازع شہریت بل اور جنوبی ایشیا میں کشیدگی پر بھی گفتگو کریں گے جب کہ بھارت میں مسلمان مخالف نفرت انگیز پر تشدد واقعات کا معاملہ بھی اٹھایا جائے گا۔
'سب سے اہم معاملہ افغان امن عمل'
خارجہ امور کے تجزیہ کار فرحان بخاری کہتے ہیں کہ اس وقت امریکہ اور پاکستان کے مابین سب سے اہم معاملہ افغان امن عمل ہے۔ صدر ٹرمپ خارجہ سطح پر اگر کوئی بڑی کامیابی اپنے صدارت انتخابات سے قبل حاصل کر سکتے ہیں تو وہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فرحان بخاری نے کہا کہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایران کے ساتھ عملی جنگ کے آغاز سے صدر ٹرمپ کو انتخابی فائدہ حاصل ہوگا تاہم مشرق وسطی کی صورت حال میں بہتری کے بعد افغان امن عمل کلیدی حیثیت کا حامل بن گیا ہے جسے امریکی صدر ایک بڑی فتح کے طور پر پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی حکام اکثر و بیشتر یہ کہتے رہتے ہیں کہ افغانستان سے فوج کا انخلا پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ طالبان نے بھی حالیہ بیان میں کہا ہے کہ رواں ماہ کے آخر تک امریکہ کے ساتھ معاہدہ طے پا سکتا ہے۔
فرحان بخاری کہتے ہیں کہ امریکہ میں یہ سوچ بھی سامنے آ رہی ہے کہ پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا ان کے حق میں بہتر نہیں ہے اور اسی وجہ سے واشنگٹن اسلام آباد سے تعلقات میں بہتری کا خواہاں ہے جس کے لیے فوجی تربیتی پروگرام بھی بحال کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی رواں ہفتے ہی امریکہ کا دورہ کیا ہے۔ جہاں انہوں نے مشرق وسطی میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں تھیں۔
واضح رہے کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے قریب امریکہ نے فضائی حملہ کیا تھا۔ امریکی راکٹ حملے کے میں ایران کے جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد ایران نے عراق میں امریکی اڈے پر میزائل داغے تھے تاہم اس میں کسی کی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔ ان حملوں کے بعد خطے میں شدید تناؤ موجود ہے جبکہ واشنگٹن اور تہران کی جانب سے سخت بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔