افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی ضلع کرم میں مبینہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث دو مختلف واقعات میں اساتذہ سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
ہلاک ہونے والے اساتذہ کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے بتایا جا رہا ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کرم محمد عمران نے وائس آف امریکہ کے نمائندے نذرالاسلام کو بتایا کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان 1909 سے زمین کا ایک تنازع چلا آ رہا ہے۔
اُن کے بقول جمعرات کی صبح پہلے شیعہ کمیونٹی کے افراد نے ایک اہلِ سنت مسلک کے شخص کو ہلاک کیا جس کے ردِعمل میں اہلِ سنت کے افراد نے اسکول کے عملے پر فائرنگ کی جس میں چار اساتذہ اور تین دیگر شہری ہلاک ہو گئے۔
محمد عمران کے بقول حملہ آوروں نے اساتذہ پر فائرنگ سے قبل باہر کھڑی پولیس وین پر بھی فائرنگ کی جس سے کچھ پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
واقعے کے بعد ضلع کرم میں صورتِ حال کشیدہ ہے اور ضلعی انتظامیہ نے امتحانات ملتوی کر کے علاقے میں سیکیورٹی سخت کر دی ہے۔
خیال رہے کہ ضلع کرم کے علاقے پاڑہ چنار میں اس سے قبل بھی فرقہ وارانہ فسادات پھوٹتے رہے ہیں جس میں اب تک درجنوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ایک ٹویٹ میں اس واقعہ پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم کی مدد سے دہشت گردی کے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔ انہوں نے ہلاک ہونے والے افراد کی مغفرت اور ان کے خاندانوں سے گہری ہمدردی کا اظہار کیا۔
پاکستان کے وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اساتذہ کے بہیمانہ قتل میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ سیکریٹری داخلے سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔
پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے پاڑہ چنار میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کی ہے۔
اپنی ٹوئٹ میں صدر علوی کا کہنا تھا کہ علم دُشمنوں کی جانب سے اساتذہ پر حملہ قابلِ مذمت ہے۔
ضلع کرم کے مرکزی قصبے پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والے صحافی عظمت علیزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرحدی قصبے تری منگل سے ملحقہ گاؤں خروٹ میں جمعرات کی صبح اہلِ سنت مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
اُن کے بقول خروٹ گاؤں میں ہونے والے واقعے کے رد عمل میں متعدد مسلح افراد نے گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول کے امتحانات کی نگرانی کرنے والے اساتذہ پر فائرنگ کر دی ۔