افغانستان کے قومی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ریکارڈنگ اسٹوڈیوز جہاں موسیقاروں اور گلوکاروں کی کئی نسلوں نے، جن میں عورتیں اور مرد دونوں شامل تھے، گانے اور دھنیں تیار کی تھیں اب تقریباً دو سال سے خاموش ہیں۔ ملک میں طالبان حکومت کی اسلام کی سخت تشریح کے مطابق موسیقی ممنوع ہے۔
افغانستان میں قومی نشریاتی نیٹ ورک پر موسیقی نشر نہیں کی جاتی تاہم طالبان اس کے بجائے ایسے گانے نشر کرتے ہیں جو بغیر موسیقی کے نعروں کی طرح لگتے ہیں۔
طالبان کے گانوں اور 'نشید' کے نام سےمعروف یہ گانے صرف مردوں کی آواز میں ہیں۔ ان میں زیادہ تر میں طالبان رہنماؤں، جہاد اور افغانستان کو غیر ملکی مداخلت پسندوں کے قبرستان کے طور پر خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔
بہت سے طالبان ان گانوں کو اپنے فون پر، گاڑیوں میں اور دوسری جگہوں پر تفریح، وابستگی اور تحریک کےجذبےکے ساتھ سنتے ہیں۔
ایک افغان تجزیہ کار وحید فقیری کہتے ہیں کہ" طالبا ن میں ایک مذہبی جوش ہے اس لیے وہ تفریح کے لیے گانے بھی استعمال کرتے ہیں۔"
ان کے بقول "یہ نوجوان طالبان کے لیے اپنی آواز وں کے 'شو آف' کےلیے مقابلے کی ایک شکل ہے۔ گانوں کو ایک کٹر طرزِ زندگی میں کچھ لطف پیدا کرنے کے مقصد سے بھی ڈیزائن کیا گیا ہے۔"
کابل میں مقیم ایک صحافی علی لطفی نے وائس آف امریکہ کو ای میل کے ذریعے بتایا کہ "طالبان ان ترانوں کو ریڈیو پر چلاتے ہیں، اگر آپ ان کی گاڑی میں موجود ہوں تو مسلسل یہ ترانے چل رہے ہوتے ہیں اور بظاہر آپ ایک قیدی سامع کی طرح ہوتے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ "میں اکثر طالبان کو سڑک پر چلتے پھرتے ہوئے یا کھڑے ہوئےفون پر یہ گانےسنتے ہوئے دیکھتا ہوں یہاں تک کہ نوکیا کےچھوٹے فون پر بھی۔"
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کے گانوں نے تیزی سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر جگہ بنائی ہے جہاں وہ عالمی سامعین کے لیے قابل رسائی ہیں۔
سوشل میڈیا کمپنیاں اکثر طالبان کے سرکاری اکاؤنٹس اور گروپس کو بلاک کرتی رہی ہیں، لیکن ان کے ہمدردوں نے فرضی ناموں سے اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے۔
طالبان کی ٹیلی ویژن سے دیرینہ ناپسندیدگی کے پیشِ نظر، یوٹیوب پر اپ لوڈ کیے گئے طالبان نواز گانوں میں صرف طالبان رہنماؤں کی تصویریں اور علامتیں ہیں۔
سن 1994 سے اپنے پہلے دور حکومت کے دوران طالبان نے ٹیلی ویژن پر مکمل پابندی عائد کردی تھی اور گروپ کی اخلاقی پولیس نے نجی ٹی وی سیٹوں کو توڑ دیا اور انہیں کھمبوں پر آویزاں کر دیا تاکہ عوام کو ان کے گھروں میں بھی ٹیلی ویژن دیکھنے سے روکا جا سکے۔
ایک باغی گروپ کے طور پر طالبان نے جدید ترین ڈیجیٹل پروپیگنڈا مہم چلائی تھی جس میں افغان اور غیر ملکی فوجیوں کے خلاف پرتشدد حملوں کی ویڈیوز بھی شامل تھیں۔
موسیقی کو مٹا دینے کی کو ششیں
سن 2021 میں طالبان کی تیزی سے اقتدار میں واپسی نے افغانستان سے فن کاروں، گلوکاروں، موسیقاروں اور صحافیوں کا اخراج دیکھا ہے۔
خطرے کے شکار فن کاروں کے لیے مفت امیگریشن اور آبادکاری کی امداد فراہم کرنے والی تنظیم آرٹسٹک فریڈم انیشی ایٹو کے مطابق پچھلے 20 ماہ کے دوران تقریباً تین ہزار فن کاروں اور گلوکاروں نے افغانستان سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے۔
ملک کا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میوزک (اے این آئی ایم) بند ہو گیا ہے کیوں کہ اس کے تمام تربیت دینے والے افراد 2021 میں افغانستان سے انخلا کے بعد ورپ میں ہیں۔
اے این آئی ایم کے ڈائریکٹر احمد سرمست نے طالبان کے دور حکومت میں موسیقاروں اور فن کاروں کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں بتاتے ہوئےکہا کہ "ہم افغانستان میں موسیقی کےشان دار ورثے کے خاتمے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔"
سرمست نے کہا کہ اگرچہ سب سے زیادہ معروف افغان موسیقار اور گلوکار بیرون ملک مقیم ہیں، لیکن ملک میں رہ جانے والوں نے مبینہ طور پر موسیقی چھوڑ دی ہے اور دوسری ملازمتوں کا سہارا لیا ہے۔
وہ کہتے ہیں ان کا اے این آئی ایم کا عملہ اور دیگر فن کار دنیا کے مختلف حصوں میں کانسرٹ اور تقریبات منعقد کرکے جلاوطنی میں افغان موسیقی کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وحشیانہ جنگوں، انتہائی غربت اور متعدد سماجی اور ثقافتی پابندیوں کے مسلسل چکر میں پھنسے بہت سے افغانوں کے لیے موسیقی روحانی طاقت اور ذہنی اور نفسیاتی شفا کا ذریعہ ہے۔
سرمست نے خبردار کیا کہ"طالبان کی موسیقی کے خلاف پالیسیاں افغانوں کو ذہنی طور پر معذور قوم میں تبدیل کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے گانے تشدد کو فروغ دے رہے ہیں۔"
طالبان کے ترجمان کو موسیقی کے بارے میں اپنی حکومت کی پالیسیوں پر تبصرہ کرنے کے لیے وائس آف امریکہ کی درخواست موصول ہوئی تھی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
طالبان حکومت اس سے قبل اس نوعیت کی پابندیوں کے حوالے سے کہتی رہی ہے کہ وہ شریعت کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے۔