جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے لائن آف کنٹرول پر واقع بنڈلی گاؤں کے بیچوں بیچ چھوٹی چھوٹی پگڈنڈی نما سڑکوں پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی نقل و حرکت بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے قریب رکے بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں، گویا ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے ہوں۔گھروں کے ارد گرد ہلچل بڑھتی جا رہی ہے اور کسی گھر کے پاس سے گزرنے پر خواتین کی آہوں اور سسکیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
یہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی میں کھوئی رٹہ کا علاقہ ہے جسے وادی 'بناہ' بھی کہا جاتا ہے۔ اس گاؤں سے غیر قانونی طریقوں سے یورپ جانے کا رجحان کافی پرانا ہے، مگر ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس گاؤں کا کوئی شخص سمندری حادثے کا شکار ہوا ہو۔
بنڈلی وہی گاؤں ہے جہاں سے گزشتہ تین سے چار ماہ کے دوران لگ بھگ 30 افراد غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے لیے مختلف طریقوں سے لیبیا پہنچے اور ان میں سے زیادہ تر اس کشتی پر سوار تھے جو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان کے شہر پائلس کے قریب بحیرۂ روم میں ڈوب گئی تھی۔
اندازہ ہے کہ اس کشتی میں 400 سے زیادہ افراد سوار تھے جن میں ایک بڑی تعداد کم عمر بچوں کی بھی تھی۔ کشتی کے اس حادثے کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد 81 ہو گئی ہے جب کہ 104 لوگوں کو یونانی کوسٹ گارڈ نے زندہ بچا لیا تھا۔ متعدد افراد اب بھی لاپتا ہیں جن میں سے کسی کے بھی زندہ بچنے کے امکانات اب کم ہیں۔
کشتی پر سوار لوگوں کی اصل تعداد اور ان کی شہریت کے بارے ابھی تک درست معلومات موجود نہیں تاہم اندازہ ہے کہ اس میں سوار لوگوں میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان، شام، مصر اور افغانستان سے ہے۔
اس حادثے میں زندہ بچنے والے 104 لوگوں میں سے 12 پاکستانی شہری ہیں جن میں بنڈلی گاؤں کے دوو نوجوان 21 سالہ حسیب الرحمان اور 23 سالہ عدنان بشیر بھی شامل ہیں۔
کشتی حادثے کے بعد اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں برطانیہ سے یونان پہنچنے والے کشمیری نژاد برطانوی شہری راجہ فریاد کی ان نوجوانوں کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کے نتیجے میں یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ڈوبنے والی کشتی پر سوارپاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے نوجوانوں کی تعداد 40 سے 50 کے درمیان ہو سکتی ہے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اسی گاؤں سے ہے۔
SEE ALSO: یونان: تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے سے قبل کیا ہوا تھا؟ متاثرین اور عہدیداروں کے بیانات میں تضادپاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت کے پاس ان لوگوں کے حتمی اعداد و شمار نہیں تاہم میرپور ڈویژن کے کمشنر چودھری شوکت علی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میرپور ڈویژن کے تین اضلاع سے اس حادثے کا شکار ہونے والوں کی تعدا 40 سے 50 کے درمیان ہو سکتی ہے۔
ڈپٹی کمشنر کوٹلی نے ابتدائی طور پر 27 ایسے افراد کی فہرست جاری کی ہے جو ممکنہ طور پر اس کشتی پر سوار تھے۔ انتظامیہ کے مطابق دیگر دو اضلاع سے بھی گزشتہ تین چار ماہ کے دوران یورپ جانے کے لیے گھر سے نکلنے والوں کے اعداد و شمار مرتب کیے جا رہے ہیں اور یہ پتہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان میں سے کون کون پہنچنے میں کامیاب ہوا یا ابھی راستے میں ہے۔
جن لوگوں کی لاشیں یونان میں موجود ہیں ان کی شناخت کا مرحلہ بھی ابھی باقی ہے۔ ان کی شناخت کے لیے لاپتا نوجوانوں کے لواحقین کی ڈی این اے رپورٹس طلب کی گئی ہیں۔ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے نے لاپتا شہریوں کے لواحقین سے اپیل کی ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی رپورٹس ارسال کریں تاکہ شناخت کا عمل مکمل ہو۔
غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے کے رجحان میں اضافہ
پاکستانی کنٹرول کے کشمیر کے جنوبی علاقوں سے محنت مزدوری کے لیے یورپ جانے کی ابتداء ساٹھ کی دہائی میں اس وقت ہوئی تھی جب منگلا ڈیم کی تعمیر کے نتیجے میں پرانا میرپور شہر ڈوب گیا تھا اور سینکڑوں خاندان بحری جہازوں کے ذریعے میرپور سے برطانیہ منتقل ہوئے اور وہیں آباد ہو گئے۔
اس وقت سے میرپور، بھمبر اور کوٹلی کے اضلاع سے برطانیہ اور یورپ جانے کا رجحان بڑھتا ہی جا رہا ہے مگر گزشتہ چند سال سے ویزوں کے حصول میں مشکلات کے بعد غیر قانونی راستوں سے یورپ اور برطانیہ میں داخل ہونے کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ مقامی زبان میں اسے 'ڈنکی مارنا' کہتے ہیں۔
کمشنر چودھری شوکت علی کہتے ہیں 'یہ لوگ ایجنٹوں کے ذریعے یہاں سے زمینی اور فضائی راستے استعمال کر کے لیبیا جاتے ہیں اور پھر وہاں سے سمندری راستوں سے غیر قانونی طور پر یونان، اسپین یا اٹلی پہنچتے ہیں۔'
کمشنر شوکت علی کے بقول ان ایجنٹوں کا تعلق گوجرانوالہ اور گجرات سمیت دیگر علاقوں سے ہے، جب کہ کئی مقامی لوگ بھی ان کے آلہ کار ہیں۔
'لاپتا نوجوانوں میں ایک ایجنٹ کا بیٹا بھی شامل ہے'
اس حادثے کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس نے 12 معلوم اور کئی نامعلوم ایجنٹوں کے خلاف کھوئی رٹہ تھانے میں مقدمہ درج کر کے 10 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
اس ریجن میں پولیس کے اعلیٰ ترین افسر خالد چوہان کے بقول نو (مبینہ) ایجنٹوں کو پہلے گرفتار کیا گیا تھا اور دسویں شخص کو مبینہ ایجنٹوں کی دی گئی معلومات کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔ ان کے بقول گرفتار افراد سے پوچھ گچھ کا عمل جاری ہے۔
خالد چوہان کہتے ہیں گرفتار افراد مقامی ہیں جن کے اصل ایجنٹوں سے رابطے تھےاور یہ مقامی سطح پر معاملات طے کرتے تھے۔ایک مقامی ایجنٹ ایسا بھی ہے جس نے کئی لوگوں کے ساتھ لین دین کیا اور اس کا اپنا بیٹا بھی ڈوبنے والی کشتی پر سوار تھا اور اب لاپتا ہے۔
تاہم انہوں نے اس ایجنٹ کی شناخت ظاہر کرنے یا اس کی گرفتاری کے بارے میں معلومات دینے سے گریز کیا۔
'لوگ ایجنٹوں کے خوف سے بات نہیں کرتے'
جب سے یونان میں کشتی ڈوبنے کی اطلاع اس گاؤں تک پہنچی ہے پورا گاؤں سوگ میں ڈوبا ہے۔ جن جن گھروں کے نوجوان اس کشتی پر سوار تھے وہاں لوگوں کا آنا جانا لگا ہے مگر یہ لوگ باہر سے آنے والے کسی اجنبی سے بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
شاید یہ صدمے کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس کی پوچھ گچھ سے خوفزدہ ہیں۔ تاہم مقامی صحافی محمد افضل کے بقول انہیں چند مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ نوجوانوں کو لیبیا لے کر جانے والے ایک ایجنٹ نے انہیں دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے کسی ایجنٹ کا نام لیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
میڈیا کے بعض مقامی نمائندوں کے بقول پولیس اور انتظامیہ نے بھی انہیں اس علاقے میں جانے اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ بات کرنے سے روکا ہے، تاہم پولیس نے اس کی تردید کی ہے۔
'ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد بیرون ملک ہے'
ایل او سی کا بنڈلی گاؤں سے فاصلہ چند کلو میٹر ہے اور ایل او سی کی دوسری جانب بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کا راجوری ضلع ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی فائرنگ کے تبادلے کے دوران جو علاقے گولہ باری سے متاثر ہوتے رہے ہیں ان میں بنڈلی بھی شامل ہے تاہم ارد گرد کے دوسرے علاقوں کی نسبت اس گاؤں کے لوگوں کی معاشی حالت کافی بہتر ہے۔
دونوں اطراف سے پہاڑیوں میں گھری اس چھوٹی سی آبادی میں زیادہ تر گھر پختہ ، بڑے اور جدید طرز کے ہیں۔ قصبے میں کاروبار کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان غیر مقامی لوگوں کی ہے جو ارد گرد علاقوں سے یہاں آ کر کاروبار کرتے ہیں جن میں خیبر پختونخوا کے افراد کی تعداد نمایاں ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 10 ہزار آبادی کے اس علاقے کے نصف کے لگ بھگ لوگ برطانیہ، یورپ یا خلیجی ممالک میں ہیں۔ پچھلے تین سالوں کے دوران اس علاقے سے پانچ سو سے زائد نوجوان ڈنکی مار کر غیر قانونی طور پر یورپ گئے۔
مقامی صحافی محمد افضل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس علاقے کا شاید ہی کوئی گھر ہو جس کے ایک یا ایک سے زائد افراد بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
وہ کہتے ہیں: 'زیادہ تر لوگ یورپ میں ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ میں ایک بڑی تعداد ہے۔ جو لوگ یورپ نہیں جا سکتے، وہ خلیجی ممالک میں چلے جاتے ہیں۔'
اس سوال پر کہ اگر لوگوں کی معاشی حالت کافی بہتر ہے تو نوجوانوں میں غیر قانونی طریقوں سے یورپ جانے کا رجحان کیوں پیدا ہوا؟ محمد افضل نے بتایا کہ یہاں کے نوجوانوں کے لیے غربت کا مطلب گھر چھوٹا یا گاڑی پرانی ہونا ہے۔ انہی خواہشات کے حصول کے لیے یہاں کے نوجوان کسی نہ کسی طرح یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے بہتر زندگی گزارنے کے اسباب پیدا کر سکیں۔
'غربت نہ ہوتی تو بیٹے کو گھر سے کیوں نکلنے دیتی'
تاہم لاپتا نوجوانوں کے اہلِ خانہ میں سے کئی محمد افضل کے نقطہ نظر سے متفق نہیں۔ وہ بیرونی ممالک جانے کی وجہ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کو ہی سمجھتے ہیں۔
بنڈلی کا 27 سالہ شمریز نامی نوجوان بھی اسی گروپ کے ساتھ گاؤں سے نکلا اور ممکنہ طور پر حادثے کا شکار ہونے والی کشتی پر سوار تھا۔
شمریز کی 65 سالہ بیوہ ماں آنکھوں میں آنسو لیے کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے سب کچھ بیچ کر اور گروی رکھ کر قرضہ لے کر گیا۔ 'غربت نہ ہوتی تو اسے گھر سے کیوں نکلنے دیتی۔'
شمریز کی اہلیہ نے، جو اپنا نام ظاہر کرنانہیں چاہتیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب سے حادثے کی خبر ملی ہے وہ بار بار اس ایجنٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر وہ اب کال اٹھاتا ہے اور نہ ہی میسج کا جواب دیتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'میں نے اس مقامی ایجنٹ سے بھی رابطہ کیا جس کے ذریعے ہم نے اصل ایجنٹ کو پیسے دیے تھے، مگر وہ کہتا ہے کہ آپ کا خاوند ڈوبنے والی کشتی پر سوار نہیں تھا۔'
شمریز کی اہلیہ کے مطابق گزشتہ منگل کو شمریز نے آخری بار پیغام بھیجا کہ ہمارا جہاز آج نکلے گا اور اب آپ سے اٹلی پہنچ کر ہی رابطہ کروں گا۔
وہ کہتی ہیں کہ، 'اس دن کے بعد ہمارا اس سے کوئی رابطہ نہیں، کوئی ایجنٹ بھی رابطہ نہیں کروا رہا۔ اٹلی میں جو ہمارے رشتہ دار ہیں وہ کہتے ہیں کہ شمریز ڈوبنے والی کشتی پر ہی تھا۔ اب بس دعا ہی کر سکتی ہوں کہ وہ جہاں بھی ہے خیریت سے ہو۔'
ایک خاندان کے چار لوگ لاپتا ، پانچواں لیبیا میں گرفتار
بنڈلی کے رہائشی سکندر خان کے خاندان کے چار نوجوان لاپتا ہیں۔
سکندر خان کے بقول ان کے دو بھتیجے اور ایک بھانجا ایک ماہ بیس دن قبل گھر سے نکلے تھے جب کہ ایک بھتیجا چھ ماہ سے لیبیا کی جیل میں تھا اور وہاں سے رہا ہونے کے بعد ان کے ساتھ شامل ہوا تھا۔
گزشتہ منگل سے ان کا اپنے عزیزوں سے کوئی رابطہ نہیں۔
سکندر خان کا خاندان اس علاقے کے صاحب ثروت لوگوں میں شمارہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشی حالات اسی لیے اچھے ہیں کہ اس خاندان کے کئی لوگ اٹلی، اسپین اور جرمنی میں ہیں۔
وہ ہجرت کی بنیاد بے روزگاری کو ہی قرار دیتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں کہ یہاں نہ کوئی فیکٹریاں ہیں، نہ کاروبار ہے۔ نوجوان یہاں رہیں تو کیا کریں؟ کوئی کام ہی نہیں۔
اس سوال پرکہ یہ نوجوان غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ سکندر خان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی غیر قانونی کام حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ایف آئی اے والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ بغیر ویزہ کے جا رہے ہیں مگر وہ ان کو نہیں روکتے بلکہ پیسے لے کر جانے دیتے ہیں۔
'باپ سفر پر نکلا تو ایک بیٹے کاانتقال ہوگیا ، دوسرا بھی بیمار ہوکر اسپتال میں ہے'
لاپتا نوجوانوں میں ایک ایسا نوجوان بھی شامل ہے جو اپنے پانچ سالہ اور دو سالہ بیٹوں کو چھوڑ کر گیا ہے۔ ویلڈنگ کا کاریگر 26 سالہ ناصر اس امید پر یورپ کے سفر پر نکلا کہ اس کے بچوں کا مستقبل بہتر ہو گا اور وہ پڑھ لکھ کر کسی قابل ہو سکیں گے۔
مقامی سماجی کارکن عابد راجوری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جانے سے پہلے جب ان کی ناصر نامی اس نوجوان سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ میں خود تو زیادہ نہیں پڑھ سکا مگر اپنے بچوں کو ضرور پڑھاؤں گا۔
عابد کے بقول ناصر ابھی لیبیا میں ہی تھا کہ اس کا پانچ سالہ بیٹا اسے مسلسل یاد کرتا رہا اور پھر اچانک کسی نامعلوم بیماری کا شکار ہو کر مر گیا۔ ناصر اپنے بیٹے کے جنازے میں بھی شامل نہیں ہو سکا۔ 'ہم نے اسے ویڈیو کال پر جنازے میں شامل کیا۔'
عابد کے بقول جس دن کشتی کو حادثہ پیش آیا، اس سے ایک دن قبل ناصر کا دوسرا بیٹا بھی شدید بیمار پڑ گیا تھااور اب اسپتال میں زندگی و موت کی کش مکش میں ہے۔
’ایجنٹ سنہرے خواب دکھا کر جہنم میں جھونک دیتے ہیں‘
28 سالہ توقیر خان دو سال سے اٹلی کے شہر میلان میں ہے۔ اس کا تعلق بھی ضلع کوٹلی سے ہے اور وہ لیبیا سے سمندری راستے سے غیر قانونی طور پر اٹلی میں داخل ہوا تھا۔
ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ کو اپنی کہانی سناتے ہوئے توقیر خان نے بتایا کہ وہ اپنے گھر سے نکلنے کے تین ماہ بعد اٹلی پہنچا۔
وہ بتاتے ہیں، 'جس ایجنٹ کے ذریعے میں یہاں تک پہنچا اس کے ساتھ میرا رابطہ اپنے ایک کزن کے ذریعے ہوا جس کو اسی ایجنٹ نے تعلیمی ویزے پر اٹلی بھیجا تھا۔ میں بھی تعلیمی یا وزٹ ویزے پر آنا چاہتا تھا۔ ایجنٹ نے بتایا کہ پاکستان سے ویزا ملنا مشکل ہے البتہ دبئی سے ایک ماہ میں ویزہ مل جاتا ہے۔'
توقیر خان اور اس کے تین ساتھی اسی ایجنٹ کے ذریعے دبئی کا وزٹ ویزہ لے کر وہاں پہنچے تو وہاں اس ایجنٹ کے لوگ انہیں دبئی سے دور راس الخیمہ کے علاقے میں ایک زیر تعمیر بستی میں لے گئےاوروہاں ٹھہرا دیا۔ توقیر نے اس گروہ کے اہلکاروں کا تعلق گجرات سے بتایا۔
'انہوں نے ہمارے پاسپورٹ وغیرہ لے لیے۔ اور ہمیں یہ کہتے ہوئے اس جگہ سے باہر جانے سے سختی سے منع کر دیا کہ پولیس گرفتار کر لے گی۔ اس جگہ ہمارے علاوہ تقریباً دو درجن لوگ اور بھی تھے۔ ہم دس پندرہ دن وہاں رہے۔ اس دوران ایجنٹ کے ساتھ ہمارا کبھی کبھار واٹس ایپ پر رابطہ ہوتا تھا۔'
توقیر کے بقول انہوں نے اس ایجنٹ کو 18 لاکھ روپے پیشگی ادا کیے تھے مگر دبئی پہنچ کر ایجنٹ نے مزید پیسوں کا تقاضا شروع کر دیا کہ دبئی سے ویزا لگنا مشکل ہے اب لیبیا جانا پڑے گا اور وہاں سے ویزا با آسانی مل جائے گا۔
SEE ALSO: یونان کشتی حادثہ: 'امید ہے کہ ایسی اطلاع آ جائے کہ ہمارا بھائی زندہ بچ گیا ہے'وہ کہتے ہیں کہ، "میں نے گھر والوں سے منگوا کرمزید چار لاکھ روپے ایجنٹ کو دیے۔ لگ بھگ ڈیڑھ ماہ بعد وہ لوگ ہمیں دبئی سے لیبیا کے شہر طبرق لے آئے۔ یہاں ساحل کے قریب ایک بدبودار گودام میں ہم نے تقریباً 20 دن گزارے ۔ لیبیا پہنچ کر اس ایجنٹ نے ہمیں مصری لوگوں کے ایک گروہ کے حوالے کر دیا۔ ان لوگوں نے ہم سے پاسپورٹ وغیرہ واپس لے لیے۔ یہاں انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر نہیں تھی۔ نہ مصری گروہ کو ہماری بات سمجھ آتی نہ ہمیں ان کی۔ 20 دن کے بعد میرا کسی نہ کسی طرح ایجنٹ سے رابطہ ہوا تو اس نے کہا کہ ویزا ملنا تو مشکل ہے اب ایک ہی راستہ ہے، اٹلی جانا ہے تو کشتی میں بیٹھ کر جانا پڑے گا۔'
توقیر خان کے بقول اس عرصے میں ان کا گھروالوں سے بھی بس ایک آدھ بار مرتبہ ہی رابطہ ہو پایا۔ ہم لوگ بدبو کی وجہ سے بیمار پڑ گئے تھے۔ ہمارے جسم پر پھوڑے نکل آئے اور دبئی سے نکلنے کے بعد ہم نے شیو کی اور نہ بال کاٹے۔
اپنی پریشانی گھر والوں کو بھی نہیں بتا سکتے تھے۔ مصری گروہ کے لوگوں سے کہتے کہ ہمارا پاسپورٹ واپس کرو ہم واپس چلے جاتے ہیں مگر وہ دھمکیاں دیتے کے اگر شور شرابہ کیا تو پولیس کے حوالے کر دیں گے۔ پاسپورٹ اب اٹلی جا کر ہی ملے گا۔
'ہم ان کی قید میں تھے اور وہاں سے باہر نکلنے کا مطلب پولیس کے ہاتھ آنا تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ گودام سے باہر نکلے تو واپسی کا راستہ نہیں ملے گا۔'
انہوں نے ہمیں کھانا پینا دینا بھی بند کر دیا۔ تو تنگ آ کر ہم نے کشتی کے ذریعے ہی اٹلی آنے کا فیصلہ کیا۔
ہمارا یہ سفر رات کے پچھلے پہر شروع ہوا اور چھوٹی سی کشتی میں ہم چار سو کے لگ بھگ لوگ تھے۔ ہم سات دن اور آٹھ راتیں سمندر میں گزارنے کے بعد اٹلی پہنچے اور اس دوران راستے میں کئی مرتبہ سمندری محافظوں سے بچنے کے لیے کشتی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شدید دھوپ اور طوفانی بارش کی وجہ سے ہماری حالت خراب ہو گئی تھی۔ کئی بار ایسی طوفانی لہروں سے ٹکرائے کہ کشتی الٹتے الٹتے بچی۔
توقیر بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ اس کشتی میں کئی شامی خاندان اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ 'کم از کم تین بچوں کو میں نے بھوک پیاس اور موسم کی سختی سے راستے میں ہی مر تے دیکھا۔'
وہ کہتے ہیں کہ کشتی کا عملہ بار بار ان بچوں کی لاشیں سمندر میں پھینکنے کے لیے ان لوگوں کو مجبور کرتا۔
یونان سے آنے والی خبروں کے مطابق تارکینِ وطن کی کشتی کے حادثے میں لاپتا افراد میں سے مزید کسی کے زندہ بچنے کی امید کم ہے۔ بنڈلی میں بھی گزرتے وقت کے ساتھ لوگوں کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔