بحیرۂ روم میں تارکینِ وطن کی کشتی کو کس طرح حادثہ پیش آیا اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب آنا باقی ہیں لیکن تارکینِ وطن کے بیانات اور یونان کے کوسٹ گارڈز کے اس پر ردِ عمل نے معاملے کو مشکوک بنا دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے تارکین وطن کی کشتی کو بحیرۂ روم میں پیش آنے والےحادثےمیں ہلاکتوں کی تعداد 81 ہو گئی ہے جب کہ سینکڑوں افراد اب بھی لاپتا ہیں۔
یونان کے قریب سمندری حدود میں ڈوبنے والی کشتی پر سوار 104 افراد کو یونانی کوسٹ گارڈ نے بچا لیا تھا۔حادثے میں بچ جانے والے افراد نے دعویٰ کیا ہےکہ کشتی کے ڈوبنے سے عین قبل ایک اور جہاز اسے 'ٹو' کر رہا تھا۔
البتہ ایتھنز میں عہدے داروں کا اصرارہے کہ تارکینِ وطن کو لیبیا سے اٹلی لے جانے والی کشتی کسی بھی مقام پریونانی کوسٹ گارڈ کے جہاز سے ’ٹو ‘ نہیں کی گئی تھی۔
یونانی کوسٹ گارڈز کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے تارکینِ وطن کو ان کے جہاز کے ڈوبنے سے پہلے بچانے کی کوشش نہیں کی۔بلکہ انہوں نے کسی بھی قسم کی مدد کرنےسے انکار کیا اورکشتی کو اٹلی لےجانے پر اصرار کیا۔
کوسٹ گارڈ ز کا استدلال تھاکہ گنجائش سے کہیں زیادہ بھرے ہوئے ٹرالر سے سینکڑوں ناپسندیدہ لوگوں کو نکالنے کی کوشش کرنابہت خطرناک ہوتا۔بہر حال واقعے کی مکمل تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔
'تلواریں اٹھائے اسمگلر لوگوں کو جہاز کی طرف ہانک رہے تھے'
بارسلونا میں رہنے والے ایک پاکستانی شخص زوہیب شمریز کو معلوم نہیں کہ اس کے 40 سالہ چچا ندیم محمد زندہ ہیں یا نہیں۔
شمریز نے خبرر ساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے بات کرتے ہوئے بتایا"میں نے چچاسے کشتی پر سوار ہونے سے پانچ منٹ پہلے بات کی تھی اور انہیں کشتی پر سوار نہ ہونے کا کہا لیکن انہوں ںے کہا کہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔"
شمریز نے بتایا کہ اپنی آخری گفتگو میں، ندیم محمد نےانہیں بتایا کہ تلواریں اٹھائے ہوئے اسمگلروں نےانہیں جہاز پر دوسروں کے ساتھ سوار ہونےکےلیےکہا، "انہوں نے مجھے بتایا کہ وہاں بہت سارے لوگ تھے لیکن اگر (مسافر) جہاز پر نہ چڑھے تو وہ انہیں مار ڈالیں گے۔"
شمریز پیر کو اپنے چچا کا سراغ لگانے اور برآمد شدہ لاشوں سے حاصل شدہ ڈی این اے کو کراس میچ کرنے کے لیے نمونہ فراہم کرنے کی کوشش میں یونان گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے چچا شادی شدہ ہیں اور پاکستان میں ان کے تین چھوٹے بچے ہیں۔ شمریز کے مطابق ندیم محمد اپنے خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
بدقسمت ٹرالر کا ایک کرد مسافر، علی شیخی
شمال مشرقی شام کے جنگ زدہ قصبے کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد باشندے علی شیخی کو امید تھی کہ یہ جہاز اسے یورپ میں بہتر زندگی کی طرف لے جائے گا۔ جہاں پہنچنے کے بعد وہ اپنی بیوی اور تین جوان بیٹوں کو بھی وہاں لے جا سکے گا۔ لیکن یورپ پہنچنے کے بجائے جہاز 14 جون کی آدھی رات کے دو گھنٹے بعد بین الاقوامی پانیوں میں ڈوب گیا۔
یورپی یونین نے امید کا اظہار کیا ہے کہ یونان تارکین وطن کےڈوب جانے کے اس سانحے کی جامع اور شفاف تحقیقات کرے گا۔
اب تک صرف 104 افراد زندہ بچائےگئے ہیں، اور 81 لاشیں نکالی گئی ہیں۔ لیکن شیخی سمیت بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ کشتی پر 750 تک لوگ سوار تھے۔
علی شیخی نے کردش ٹی وی 'رودا' کو بتایا کہ اس نے اپنے مرجانے والے چھوٹے بھائی اور دیگر رشتہ داروں سمیت اسمگلروں کو اس سفر کے لیے فی کس چارہزار ڈالر ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
انہوں نے اتوار کو ایتھنز کے قریب ایک بند استقبالیہ مرکز سے فون پر بات کرتے ہوئے،جہاں زندہ بچ جانے والوں کو منتقل کر دیا گیا ہے، رودا ٹی وی کو بتایا کہ "سفر سے قبل بڑی کشتی اچھی حالت میں تھی اور ہمیں بتایا گیا کہ کوئی کھانے پینے کی چیز یا یا دوسرا سامان نہیں لانا ہےکیوں کہ یہ سب کچھ کشتی پر دستیاب ہے۔"
شیخی اور دوسرے زندہ بچ جانے والوں کے بیانات کے مطابق اسمگلروں نے کسی کو لائف جیکٹس لانے کی بھی اجازت نہیں دی اور مسافروں کے پاس جو بھی کھانا تھا اسے سمندر میں پھینک دیا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو جہاز کے سامان رکھنے والےنچلےحصے میں جانے کی ہدایت کی گئی تھی جو موت کا ایک ایساجال تھاجہاں خواتین اور بچوں سمیت بیٹھے ہوئےسینکڑوں افراد کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ ڈوب گئے ہیں۔ لیکن اسمگلروں کو اضافی رقم ادا کرنے کے بعد شیخی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اوپر ڈیک پر بیٹھ گئے۔
اس بدقسمت کشتی کے ڈوبنے تک وہ سمندر میں پانچ دن گزار چکے تھے۔ ڈیڑھ دن کے بعد پانی ختم ہوگیا تو کچھ مسافروں نے سمندری پانی پی کر پیاس بجھانے کی کو شش کی۔
شیخی نے کہا کہ جب ٹرالر ، انجن خراب ہونے کے بعد ڈوبنے لگا تو ایک اور جہاز نے اسے کھینچنے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ کھینچنے کی کوشش میں ٹرالر ڈوب گیا۔ "ہم نہیں جانتے کہ وہ (جہاز)کس کا تھا۔"
اسی طرح کے دعوے دوسرے زندہ بچ جانے والوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے اکاؤنٹس میں کیے ہیں۔
دیگر زندہ بچ جانے والوں نےبھی پیر کو شامی میڈیا میں گمنام طور پر یہ کہا کہ جہاز کو کھینچا جا رہا تھا۔
شیخی نے رودا ٹی وی کو بتایا کہ "ٹرالرایک طرف سےاوپر ہوگیا اور لوگ وہاں سے سمندر میں گر گئے۔اندھیرے میں لوگ چیخنے لگے۔ ہر شخص نے دوسرے کو پکڑ کر نیچے کھینچنے کی کوشش کی، اس وقت میں نے سوچا کہ کوئی زندہ نہیں بچے گا۔"
بچ جانے والے تمام مرد اور نوجوان پاکستان، مصر، شام، اور فلسطینی علاقوں سے ہیں۔
ڈاکٹرز وِدآؤٹ فرنٹیئرز (MSF) بین الاقوامی خیراتی ادارے کے یونان کے ایک سینیئر اہلکار، Duccio Staderini نے کہا کہ یورپ کی سخت سرحدی پالیسیوں کے نتیجے میں نقل مکانی کی 'رکاوٹوں' کی وجہ سے اسمگلنگ کے نیٹ ورک مضبوط ہو رہے ہیں۔
انہوں نے ملاکاسا میں زندہ بچ جانے والوں سے ملاقات کے بعد 'اے پی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔