پاکستان میں اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کو تعینات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے منگل کو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمد علی شیخ کو ملک کی سپریم کورٹ میں عارضی یعنی ایڈہاک جج لگانے کی منظوری دی تھی البتہ کمیشن کے ایک رکن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے تحریری طور پر عارضی جج بننے سے معذرت کی ہے تاہم چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کا مستقل جج بننے کی حامی بھری ہے۔
جوڈیشل کمیشن نے پانچ کے مقابلے میں چار ووٹ سے جسٹس احمد علی شیخ کو ایک سال کے لیے سپریم کورٹ کا عارضی جج بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس سے قبل جوڈیشل کمیشن نے سندھ ہائی کورٹ کے سنیارٹی میں پانچویں نمبر پر موجود جسٹس محمد علی مظہر کو سپریم کورٹ کا مستقل جج بنانے کی منظوری دی تھی جس پر وکلا نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا تھا۔ جب کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو بھی مستقل جج بنانے کے بجائے عارضی جج تعینات کرنے پر وکلا برادری نے مخالفت کی ہے۔
’ایڈہاک جج بننے سے انکار پر جسٹس احمد علی شیخ بطور چیف جسٹس کام کرتے رہیں گے‘
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے انکار کے کیا قانونی نتائج ہو سکتے ہیں؟ جوڈیشل کمیشن کے رکن اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت اگر ہائی کورٹ کے کسی جج کو سپریم کورٹ میں مستقل جج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا جائے اور وہ انکار کر دے۔ تو اسے ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔ لیکن دوسری جانب اگر ہائی کورٹ کے کسی کو جج کو سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج تعینات کیا جائے اور وہ انکار کردے تو اسے ریٹائرڈ نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ وہ اپنی موجودہ پوزیشن پر ہی کام کرتا رہے گا۔ اور یوں جسٹس احمد علی ایم شیخ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر ہی کام کرتے رہیں گے۔
اخترحسین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ اگر اس کے باوجود بھی کوئی مختلف نوٹی فکیشن جاری کیا جاتا ہے تو بار کونسل دیکھے گی کہ اس کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جائے اور ایسے کسی عمل کو یقینی طور پر عدالت میں چیلنج بھی کیا جائے گا۔
حکومت جسٹس احمد علی شیخ کو ایڈہاک جج بنانے کی حامی
اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان نے اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن کو خط ارسال کیا ہے جس میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس احمد علی شیخ کو ایڈہاک جج بنانے کی سفارش کی حمایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو سندھ کے عوام کے مفاد کی خاطر اپنے مؤقف پر نظرِ ثانی کرنی چائیے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ آئین کی تشریح کے تحت اگر کسی چیف جسٹس کو ایڈہاک جج بنایا جا رہا ہے تو اس بارے میں ضروری نہیں کہ ان کی مرضی حاصل کی جائے۔ البتہ اس بارے میں آئین میں واضح الفاظ استعمال نہ کرنے کی وجہ سے کسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ایڈہاک جج کے طور پر سپریم کورٹ میں تعینات کرنے پر مجبور کرنا ناپسندیدہ مثال بن سکتی ہے جس سے عدلیہ کے مستقبل کے لیے انتہائی ناگوار نتائج نکل سکتے ہیں۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بطور فیڈریشن، ملک کے اداروں کو مضبوط کرنے اور ان کے موثر طور پر کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تمام لوگوں کی نمائندگی ہو۔
SEE ALSO: سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج کی تقرری: 'غیر ضروری آئینی بحران پیدا کرنے کی کوشش ہے'اٹارنی جنرل کے خیال میں اگرچہ جوڈیشل کمیشن کے اکثریتی ارکان چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ کا مستقل جج بنانے کے لیے تیار نہیں البتہ انہیں اس کے باوجود ایڈ ہاک جج کے طور پر سپریم کورٹ میں ضرور آنا چاہیے۔
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ایک تو اس وقت سپریم کورٹ میں کوئی سندھی بولنے والے جج نہیں ہے۔ ماضی میں سندھ کے عوام کے ساتھ مختلف قومی اداروں بشمول عدلیہ میں ہونے والی ناانصافیوں کے پیشِ نظر یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس وقت سندھ ہائی کورٹ کے سینئر ججز کے درمیان وہ رواداری نظرنہیں آتی جو کہ روایتی خاصہ رہی ہے اور اس سے ہائی کورٹ کے کاموں اور ماحول پر سنجیدہ اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
’چیف جسٹس کو ایڈہاک جج بنانے سے ہائی کورٹ میں انتظامی تعطل آجائے گا‘
وکلا کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اس سارے ہنگامے سے عدلیہ کے وقار میں کمی اور کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہو گی۔
اختر حسین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اگر جسٹس احمد علی شیخ سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج بننے پر راضی ہو بھی جائیں۔ تو سندھ ہائی کورٹ میں ان کی جگہ صرف سینئر ترین جج کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اور قائم مقام چیف جسٹس دیگر ججز کو نہ ہی ترقی دے سکتے ہیں اور نہ ہی نئے ججز کو مقرر کرنے کے اختیار رکھیں گے۔ جب کہ ہائی کورٹ میں اس وقت آٹھ ججز کی آسامیاں خالی ہیں۔ اور ایسا کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ ہائی کورٹ کا تمام انتظامی کام ایک طرح سے تعطل کا شکار ہو جائے گا۔
وکلا رہنماؤں کے خیال میں سنیارٹی کے اصول کو نہ اپنا کر ایک غیر ضروری بحران کو جنم دیا گیا اور اس کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے جب سینیارٹی کے اصول پر عمل کیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ سنیارٹی کے اصول کا متبادل تلاش کرنے اور اس پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنے تک اسی اصول کے تحت ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ میں تقرریاں کی جانی چاہیے۔