سندھ ہائی کورٹ نے ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام میں گرفتار صحافی نصراللہ چوہدری کو بری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے مذکورہ صحافی کو پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالمالک گادی اور جسٹس راشدہ اسد پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے اُنہیں تمام الزامات سے بری کر دیا ہے۔
دورانِ سماعت نصراللہ چوہدری کے وکیل محمد فاروق ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل پر یہ الزام ثابت نہیں ہوتا کہ ان سے برآمد شدہ لٹریچر کے وہ مدیر تھے اور نہ ہی پراسیکیوشن کی جانب سے یہ ثابت کیا جاسکا ہے کہ انہوں نے کبھی ممنوعہ تحریری مواد کی ترویج یا اشاعت میں کبھی حصہ لیا ہے۔
محمد فاروق ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ اُن کے مؤکل پر یہ الزام بھی ثابت نہیں ہوا کہ وہ القائدہ یا کسی بھی کالعدم تنظیم کے رکن تھے۔
سرکاری وکیل نے ملزم نصر اللہ چوہدری کے وکیل کے دلائل کی مخالفت کرتے ہوئے اُنہیں بری نہ کرنے کی استدعا کی تھی۔
ادھر نصراللہ چوہدری کو بری کرنے کے حکم پر کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران کا کہنا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے سے حق و سچ کی فتح ہوئی ہے۔
اُن کے بقول یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پریس کلب کے رکن کو اس مقدمے میں پھنسایا گیا تھا جس کا سچ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ غیر قانونی ہتھکنڈوں کے استعمال سے آزادیٔ صحافت اور اظہار رائے پر قدغنیں لگائے جانے کا سلسلہ جاری ہے جس کے خلاف جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔
کیس کا پس منظر
مقامی روزنامہ 'نئی بات' سے منسلک صحافی نصراللہ چوہدری کو نومبر 2018 میں کراچی کے علاقے سولجر بازار سے گرفتار کیا تھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اُن کے قبضے سے نفرت آمیز لٹریچر برآمد ہوا تھا۔ انسدادِ دہشت گردی عدالت میں چلنے والے مقدمے میں سماعت مکمل ہونے کے بعد دسمبر 2019 کے آخر میں نصراللہ چوہدری پر دو مختلف جرائم میں پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنانے کے علاوہ 15 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔
عدالت نے ملزم کی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے فوری جیل بھیجنے کا حکم سنایا تھا تاہم نصراللہ چوہدری نے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔