کیا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے قائدین کی ملاقات تحریکِ عدم اعتماد کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے؟

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ملاقات میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کے صاحب زادے اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف، ان کے صاحب زادے حمزہ شہباز اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز موجود تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف اور مریم نواز سے ملاقات کی۔ ملاقات میں حکومت مخالف حکمتِ عملی بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی ملاقات میں دونوں جماعتوں کے دیگر رہنما بھی شامل تھے۔ ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ اگر آج حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں اکٹھی نہ ہوئیں تو قوم معاف نہیں کرے گی۔

شہباز شریف نے مزید کہا کہ اُنہوں نے اتفاق کیا ہے کہ پاکستان کو اِس حکومت کے خلاف اکٹھا ہونا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اِس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو تمام قانونی، آئینی اور سیاسی حربوں کو استعمال کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کا اِس بارے میں واضح مؤقف ہے البتہ مسلم لیگ (ن) میں دو رائے پائی جاتی تھی البتہ نواز شریف بہت حد تک یکسو ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ اُنہوں نے طے کیا ہے کہ آئندہ چند دِن میں مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) میں اِس سلسلے پر مشاورت کی جائے گی اور یہی بات پی ڈی ایم میں بھی لے کر جائیں گے جس کے بعد مشاورت سے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب اچھا وقت آئے گا تو سب اپنی اپنی سیاست کریں گے البتہ موجودہ صورتِ حال میں حزبِ اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نکتے پر آنا ہو گا۔

اِس موقع پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے لیے ماضی کے اختلافات کے باوجود بڑا قدم اُٹھانے کے لیے اکٹھے ہیں۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت عوام کا اعتماد کھو چکی ہے۔ اِس پر سے اب پارلیمان کا اعتماد بھی اُٹھ جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے خاتمے کے لیے احتجاج، آئینی اور قانونی جدوجہد پر بات چیت کی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کے مطابق پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہےجسے دونوں جماعتوں نے خوش آئند قرار دیا ہے۔

اُن کا کہا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں اختلاف ہوتے رہتے ہیں البتہ حکومت کے خاتمے کے لیے حزبِ اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں اکھٹی ہیں۔آگے چل کر مزید اتفاق رائے پیدا ہو سکتا ہے۔

مبصرین اِس ملاقات کو اہم تو سمجھ رہے ہیں البتہ اُن کے مطابق اِس سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پہلے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں اکٹھے تھے۔ اِن میں اختلافات ہوئے اور علٰیحدگی ہو گئی۔ علیٰحدگی کی وجہ مسلم لیگ (ن) کہتی تھی کہ قومی اور صوبائی اسمبلی سے مستعفی ہو کر حکومت کے خلاف دھرنا دیا جائے جب کہ پیپلز پارٹی کا مؤقف تھا کہ دھرنے کے لیے تیار ہیں البتہ استعفے نہ دیے جائیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ ایک سال بعد مسلم لیگ (ن) اِسی نکتے پر آ گئی ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد لائی جائے۔ جس پر دونوں جماعتوں کے درمیان معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں مولانا فضل الرحمٰن کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات ہوئی تھی۔ اَب دوسرے مرحلے میں اُن کی شہباز شریف سے ملاقات ہو گی۔

حالیہ ملاقات کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اپوزیشن جماعتوں کو قریب لانے کی کوشش ہے لیکن اصل مسئلہ وہی ہے۔ اُن کے مطابق مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کے بعد نئے انتخابات ہوں جب کہ پیپلز پارٹی اِس کے لیے تیار نہیں ہے۔

حامد میر نے کہا کہ اِس ملاقات کا فوری طور پر کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن کے پاس اور خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے پاس ووٹ موجود ہیں۔

واضح رہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی اس ملاقات پر حکومتی شخصیات تنقید کر رہی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل کا کہنا تھا کہ عوام کو ان کی اصلیت معلوم ہے جنہیں ابہام ہے وہ بھی دور ہو جائے گا۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ آخر ایک دوسرے کے ازلی حریف اور بالکل مخالف نظریات رکھنے والی جماعتیں عمران خان سے اتنی خوفزدہ کیوں ہیں؟ ان کے مطابق ان کی لوٹی ہوئی دولت کو اگر کوئی خطرہ ہے تو اس کا نام عمران خان ہے۔