پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کا کہنا ہے کہ انتخابی اصلاحات کا بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرایا جائے گا جس کے بعد الیکشن کمیشن بھی اس قانون پر عمل درآمد کا پابند ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی بنائی ہوئی الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) واپس لینے کو تیار ہے، بے شک جہاں سے بھی، مرضی کی مشین لے لیں کیوں کہ مستقبل صرف ٹیکنالوجی کا ہے۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ساتھ چلنا چاہے تو مرضی لیکن ہم شفاف انتخابات کے لیے ای وی ایم لے کر آئیں گے اور وزارت سائنس کی بنی مشین سے 100 فی صد شفاف انتخابات ہوں گے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں 2023 میں شیڈول عام انتخابات کے لیے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کرائی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس سے انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کا ازالہ اور شفافیت آئے گی۔
لیکن پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس پر اعتراضات اُٹھا دیے ہیں۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سے تصادم نہیں چاہتے، معاملات حل کرنا چاہتے ہیں لیکن اصولوں پر سمجھوتہ بھی نہیں کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'ای وی ایم متنازع نہیں'
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ای وی ایم مشین متنازع نہیں ہو رہی لیکن وہ سیاسی جماعتیں جو نہیں چاہتیں کہ الیکشن صاف اور شفاف ہو وہ اس کو متنازع بنا رہے ہیں، ان لوگوں نے اب تک یہ مشین دیکھی بھی نہیں اور نہ ہی ٹیسٹ کی لیکن وہ اسے متنازع بنا رہے ہیں۔
شبلی فراز کے بقول ان لوگوں نے اپنا بیانیہ بنایا ہوا ہے کہ اس مشین میں گڑبڑ ہو سکتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہماری بنائی ہوئی مشین ہی ہو۔ الیکشن کمیشن نے اس بارے میں حتمی فیصلہ کرنا ہے، ہم نے پروٹو ٹائپ مشین بنائی ہے۔ اگر کوئی بین الاقوامی کمپنی کی مشین کمیشن نے منتخب کی تو وہ استعمال ہو گی۔
'آدھے گھنٹے سے دو گھنٹوں کے اندر ای وی ایم کی تربیت ممکن ہے'
شبلی فراز نے کہا کہ مشینوں کی تعداد جتنی بھی ہو، ہم اسے فراہم کر سکتے ہیں لیکن اگر کسی باہر کی کمپنی سے لینے کا فیصلہ کیا گیا تو بھی کمپنی باآسانی اسے بنا سکتی ہے۔
اُن کے بقول اس مشین پر عملے کی تربیت بہت زیادہ لمبے عرصے کے لیے نہیں چاہیے، محض آدھے گھنٹے سے دو گھنٹوں میں بھی اس مشین کو آپریٹ کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے، ہماری تیار کردہ مشین ووٹرز باآسانی استعمال کر سکیں گے۔
شبلی فراز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ٹیکنیکل ٹیم نے اس مشین سے متعلق ہم سے جو بھی معلومات طلب کیں ہم نے من و عن فراہم کیں۔ البتہ سورس کوڈ اور ڈیزائن سے متعلق بعض معلومات اس موقع پر فراہم نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر ہم ٹینڈر میں آئے تو وہاں ہم یہ بھی فراہم کر دیں گے۔
الیکشن کمیشن کے تحفظات کیا ہیں؟
الیکشن کمیشن کی طرف سے اعتراضات اور تحفظات کے بارے میں شبلی فراز نے کہا کہ ان کے تحفظات دو قسم کے ہیں۔ انہوں نے 37 نکات دیے ہیں جن میں سے 27 نکات الیکشن کمیشن کی استعدادِ کار کے بارے میں ہیں، اس سے پہلے ہم نے ای سی پی کی ڈیمانڈ پر 70 نکات کے مطابق انہیں مشین بنا کر دی۔
اُن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی تیکنیکی ٹیم یکم اکتوبر تک ہمیں سفارشات دے گی کہ اُنہیں مشین میں کیا تبدیلیاں درکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ دھاندلی سے پاک الیکشن کرایا جائے، جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو ان پر اعتراض کیا جاتا ہے اور دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
'مشین خراب ہوئی تو آدھے گھنٹے میں تبدیل ہو گی'
اس مشین میں کسی خرابی کے امکان کے بارے میں وزیر سائنس وٹیکنالوجی کا کہنا تھا کہ صرف خرابی کے ڈر سے ٹیکنالوجی کو مسترد نہیں کیا جا سکتا، مشین خراب ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے ہم 50 ہزار مشینیں زائد بنائیں گے۔ ہر ڈویژن میں زائد مشینیں موجود ہوں گی اور کسی خرابی کی صورت میں آدھے گھنٹے میں متبادل مشین پہنچ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ کسی مشین کو صرف اس وجہ سے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ اگر وہ خراب ہو گئی تو کیا ہو گا۔ الیکشن ایکٹ میں کہا گیا تھا کہ ای وی ایم کے استعمال کے لیے پائلٹ پراجیکٹ ہوں گے اور ضمنی انتخاب میں اسے استعمال کیا جائے گا، لیکن الیکشن کمیشن نے اسے استعمال نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ مشین ہائبرڈ سسٹم پر کام کرے گی جس میں الیکٹرانک اور پیپر ریکارڈ موجود ہو گا۔ الیکٹرانک ووٹ کاسٹ ہونے کے ساتھ ایک بیلٹ پیپر نکلے گا، اسے باکس میں ڈالا جائے گا۔
اُن کے بقول الیکٹرانک ووٹ کے ساتھ ساتھ بیلٹ پرچی بھی ہو گی جب کہ بار کوڈ کے ذریعے اس کی تصدیق بھی ممکن ہو گی اور اس میں ووٹر کی سیکریسی بھی برقرار رکھی جائے گی۔
'انتخابات اس وقت بہترین ہوں گے جب ہارنے والا شکست تسلیم کرے گا'
شبلی فراز نے کہا کہ انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن بات نہیں کر رہی، بضد ہیں کہ ہم نہیں مانتے۔ یہ بچگانہ باتیں ہیں۔
اُن کے بقول موجودہ دور میں ٹیکنالوجی ایڈوانس ہو چکی ہے، اپوزیشن کہتی ہے کہ سیکیورٹی ایشو ہے تو ہماری مشین نہ لیں، ہم مشین واپس لینے کو تیار ہیں۔ بے شک کسی بھی دوسرے ملک سے لے لیں لیکن ہم ٹیکنالوجی کی طرف جانا چاہتے ہیں۔
'قانون بن جائے گا تو ادارے ماننے کے پابند ہیں'
ایک سوال کے جواب میں شبلی فراز نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، اس ادارے کی بھی ذمے داریاں ہیں۔ کوئی بھی ادارہ اختلاف حاصل کر سکتا ہے لیکن زبردستی ڈیمانڈ نہیں کر سکتا۔
انہوں نے اعظم سواتی کے بیان کے بارے میں کہا کہ پارلیمنٹ میں جو بات ہوتی ہے کوئی کسی وجہ سے اپ سیٹ ہے یا ریزرویشن ہے تو اس کا حق ہے کہ وہ اظہار کرے۔ اب اعظم سواتی اور فواد چوہدری کو طلب کیا گیا ہے لہذا میں ابھی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، لیکن ہم ایسا نہیں چاہتے کہ آئینی ادارے سے تصادم ہو۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں۔ اگر ہمارے پاس اکثریت ہے تو قانون بننے سے کوئی نہیں روک سکتا اور قانون بن جائے تو تمام ادارے ماننے کے پابند ہیں۔
'اوورسیز پاکستانیوں کےلیے آئی ووٹنگ لازمی لائیں گے'
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ آئی ووٹنگ ایک پیچیدہ عمل ہے، ای وی ایم کو ہیک نہیں کیا جا سکتا لیکن آئی ووٹنگ ایسا معاملہ ہے جس پر نادرا اور الیکشن کمیشن نے فیصلہ کرنا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اب پہلے والا پاکستان نہیں ہے ہماری ٹیکنالوجی میں بہتری آئی ہے، مجھے پورا یقین ہے کہ ہم اس مسئلے کو حل کر لیں گے۔ اور اوورسیز پاکستانیوں کے لیے لازمی آئی ووٹنگ لائیں گے۔
'میڈیا کے لیے شتر بے مہار آزادی نہیں ہو سکتی'
پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے بارے میں شبلی فراز نے کہا کہ بیرون ممالک ہتکِ عزت کے سخت قوانین موجود ہیں۔ لیکن یہاں یک طرفہ باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ جو مرضی کریں، روزانہ حکومت کو گالیاں پڑتی ہیں، لیکن ہم نے کسی کو جیل کے اندر کیا اور نہ ہی کسی چینل کو بند کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ بطور وزیرِ اطلاعات مجھے وزیرِ اعطم نے کبھی نہیں کہا کہ کسی چینل کے خلاف ایکشن لوں، لیکن شتر بے مہار کی طرح آزادی نہیں ہو سکتی، پی ایم ڈی اے کا قانون ابھی آیا نہیں اور اس پرتبصرے ہو رہے ہیں۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ کسی مغربی ملک میں اتنی آزادی نہیں ہے، ہم اگر امریکہ یا برطانیہ کی طرح ہو جائیں تو بہت سختی کرنا ہو گی۔
'فیک نیوز پر سیاست دانوں کو بھی جرمانہ ہونا چاہیے'
شبلی فراز نے کہا کہ فیک نیوز کو ہرحال میں روکنا ہو گا، ہم میڈیا ورکرز کے مستقبل کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اگر کسی پر الزام لگ جائے اس کے پاس شنوائی کے لیے کوئی فورم نہیں ہے۔ عدالتیں 10، 10 سال فیصلے نہیں دیتیں۔
انہوں نے کہا کہ فیک نیوز دینے والے سیاست دان پر بھی جرمانہ ہونا چاہیے، میڈیا کے پروگرام کو استعمال کرتے ہوئے سیاست دان اپنی بات پہنچاتے ہیں، جو سیاست دان جھوٹی باتیں کرتے ہیں ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ ساتھ ساتھ ہتکِ عزت کے قوانین پر بھی بات ہونی چاہیے۔