دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ: کیا نیشنل ایکشن پلان پر نظرِثانی ہونی چاہیے؟

  • پاکستان کی وفاقی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر نظرِثانی کا عندیہ دیا ہے۔
  • خیبرپختونخوا حکومت نے کالعدم تحریکِ طالبان کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی تجویز دی ہے۔
  • ماضی میں مذاکرات کے دوران کالعدم ٹی ٹی پی نے خود کو منظم کیا: تجزیہ کار ہما بقائی
  • نیشنل ایکشن پلان پر نظرِ ثانی سے قبل پارلیمنٹ اور دیگر فریقوں کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے: سابق سربراہ سی ٹی ڈی احسان غنی

اسلام آباد -- پاکستان کی وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر نظرِ ثانی کر رہی ہے تاکہ دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کو روکا جا سکے۔

دوسری جانب دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت کا مؤقف ہے کہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کیے جانے چاہئیں۔

ایک ایسے وقت میں جب ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جارہا ہے وفاق اور صوبے میں اس سے نمٹنے کے حوالے سے مختلف پالیسی کے اثرات پر بھی بحث ہو رہی ہے۔

پاکستان میں وفاقی حکومت مسلم لیگ (ن) جب کہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہے۔

گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے قومی اسمبلی میں ’دہشت گردی‘ کے بڑھتے واقعات پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر نظرِ ثانی شروع کر دی ہے۔

وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے ایک پریس کانفرنس کے دوران واضح الفاظ میں کہا کہ "بات چیت کو ایک بار پھر موقع دینا چاہیے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ "اس سے قبل مذاکرات ناکام ہوئے جس کا ہمیں نقصان بھی ہوا، تاہم اب ہمیں سنجیدگی سے اس معاملے پر سوچنا چاہیے۔"

پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ایک مرتبہ پھر ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے جن میں سے بعض حملوں میں غیر ملکیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے میں 132 طلبہ سمیت 148 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ واقعے کے بعد پاکستان کی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان شروع کیا تھا جس کے تحت ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا تھا۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت چاروں صوبوں میں اپیکس کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں جس میں سول اور عسکری حکام شریک تھے۔ اسی کے تحت ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی بھی منظوری دی گئی تھی۔

'ٹی ٹی پی سے مذاکرات زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے'

ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاق اور صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے درمیان دہشت گردوں سے نمٹنے کے حوالے سے مختلف سوچ کا اظہار قومی اتفاقِ رائے کو متاثر کرے گا۔

قومی سلامتی امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ وفاق اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کی تجویز زمینی حقائق کے مطابق ممکن نہیں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بات چیت کی پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور اس وقت تو پاکستان کے افغان طالبان سے بھی اچھے مراسم نہیں ہیں۔

ہما بقائی نے کہا کہ افغان طالبان کی سہولت کاری میں جب مذاکرات ناکام ہو گئے تو اب ایسے کیا محرکات ہو سکتے ہیں کہ یہ مذاکرات آگے بڑھیں۔ افغان طالبان دہائیوں سے ٹی ٹی پی کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔

SEE ALSO:

افغان طالبان کا ہمسایہ ملکوں پر داعش کی حمایت کا الزام: 'بلیم گیم کا فائدہ دہشت گرد اُٹھائیں گے'کیا افغانستان امریکہ کی ترجیح نہیں رہا؟پاکستانی آرمی چیف کا بیان: کیا افغان سرزمین 'سی پیک' کے خلاف استعمال ہو رہی ہے؟

یاد رہے کہ 2021 میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کیے تھے تاہم وہ کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔

ہما بقائی نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے مذاکرات کے وقت کو خود کو منظم کرنے کے لیے استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد گروہ سے بات چیت اسی صورت ہو سکتی ہے جب وہ آئینِ پاکستان کو تسلیم کریں۔

'یہ فیصلہ پارلیمنٹ کو کرنا ہے'

قومی انسدادِ دہشت گردی اتھارٹی کے سابق سربراہ احسان غنی کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان میں بھی عسکریت پسند تنظیموں سے بات چیت کا راستہ رکھا گیا ہے۔ لیکن یہ مذاکرات کمزوری کی بنیاد پر نہیں بلکہ طاقت کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں لانا ہے تو اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کو کرنا چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو طاقت کے استعمال سے دہشت گردوں کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ خود کہیں کہ ہم بات چیت کرنا چاہتے ہیں نہ کہ حکومت مذاکرات کی خواہش ظاہر کرے۔

احسان غنی کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی کابل میں ہونے والے مذاکرات کمزوری کی بنیاد پر کیے گئے تھے اور اسی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے حامی رہے ہیں۔

'فوج غیر مشروط بات چیت کی حامی نہیں ہو گی'

وفاق اور صوبے میں دہشت گردوں سے نمٹنے کے حوالے سے پائی جانے والی مختلف سوچ کو لے کر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس سے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاقِ رائے ضروری ہے اور وفاق و صوبے کے درمیان فرق اسے متاثر کر رہا ہے۔

ہما بقائی کہتی ہیں کہ دہشت گردی جیسے حساس معاملے پر وفاق اور صوبے میں چپقلش سے دشمن عناصر فائدہ اٹھائیں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاقِ رائے اور ہم آواز ہونا ضروری ہے بصورت دیگر سیاسی تقسیم کا فائدہ حریف کو حاصل رہے گا۔

ہما بقائی کہتی ہیں کہ صوبائی حکومت کی رائے اپنی جگہ لیکن حتمی فیصلہ وفاقی حکومت کا ہی ہو گا۔

وہ کہتی ہیں کہ جس حالات سے ملک گزر رہا ہے اور روزانہ جوانوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں تو فوج بھی دہشت گردوں سے غیر مشروط بات چیت کی حامی نہیں ہو گی۔

احسان غنی نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے وفاق اور صوبے کے متضاد بیانات ابہام پیدا کرتے ہیں جس سے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ذہن متاثر ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر وفاق اور صوبے نے مل کر عمل درآمد کرنا ہے اور اگر صوبے اور وفاق کی سوچ میں فرق ہو گا تو اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکے گا۔

کیا نیشنل ایکشن پلان پر نظرِ ثانی ہونی چاہیے؟

وفاقی حکومت کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان پر نظرِ ثانی ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور دہشت گردی معاشی سرگرمیوں اور غیر ملکی شہریوں کو ہدف بنا رہے ہیں۔

ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر نظرِ ثانی کرنا اچھی حکمتِ عملی ہے کیوں کہ بہت سے ماہرین سمجھتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری کی ضرورت ہے۔

ہما بقائی کا کہنا تھا کہ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس وقت پاکستان کی حکومت معاشی بحالی کے اقدامات لے رہی ہے جس میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے کیوں کہ دہشت گردوں کا ہدف ملک کی معیشت ہے۔

ہما بقائی نے کہا کہ اگر انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین کے ساتھ مشاورت کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان میں تبدیلیاں لائی جاتی ہیں تو یہ ملک میں قیامِ امن اور معاشی ترقی کے لیے بہت مفید ہو سکتا ہے۔

احسان غنی کا کہنا تھا کہ جب نیشنل ایکشن پلان بنا تو ابتدائی خدوخال کے بعد ماہرین کی ایک کمیٹی نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے 20 نکات ترتیب دیے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان بناتے وقت اس کے عمل درآمد کا اچھا نظام نہیں بنایا گیا تھا۔ لہذٰا اب وقت ہے کہ عمل درآمد کا بہتر میکنزم بنایا جائے۔