|
قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے بیرونِ ملک پاکستانی قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بدھ کو پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ اس وقت 20 ہزار پاکستانی دیگر ممالک میں قید ہیں جن میں سے نصف تعداد یعنی 10 ہزار سعودی عرب کی جیلوں میں ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی سفارت خانوں کی استعداد کی کمی اور وزارتوں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب بیرون ممالک پاکستانی قیدیوں کی تعداد بڑھی ہے۔
بیرون ممالک قید پاکستانیوں کی یہ تعداد 2022 کے اعداد و شمار کے مقابلے میں دگنی ہے جو کہ 11 ہزار کے قریب تھی۔
سابق وفاقی وزیر برائے اوورسیز پاکستانیز ساجد حسین طوری کہتے ہیں کہ بیرون ممالک پاکستانی قیدیوں کی تعداد میں اضافہ بہت افسوس ناک ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بیرون ممالک قید پاکستانیوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بڑی تعداد غیر قانونی طور پر بیرون ممالک جاتی ہے جسے زیادہ تر شمار نہیں کیا جاتا ہے۔
ساجد طوری کے بقول غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کا معاملہ زیادہ گھمبیر ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بطور وزیر صرف یونان اور سعودی عرب کے دورے سے معلوم ہوا کہ ہزاروں پاکستانی یہاں قید ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے یونان اور سعودی عرب کی حکومت کو اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ ان غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کو قانونی حیثیت دی جائے تاہم ان کی حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد اس معاہدے پر زیادہ پیش رفت نہیں کی گئی۔
ساجد طوری نے کہا کہ پاکستانی قیدیوں کی واپسی کے حوالے سے وزارتِ داخلہ کو متحرک کردار ادا کرنا ہو گا جس کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے اور اس مقصد کے لیے حکومت کو ایک جامع پالیسی سامنے لانا ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
'دو سال میں بیرون ممالک قیدیوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے'
پاکستان کے ایڈوکیسی گروپ 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان' (جے پی پی) کی سربراہ سارہ بلال کہتی ہیں کہ یہ اعداد و شمار بہت تشویش ناک ہیں اور بیرون ممالک قیدیوں کے حوالے سے ایک بحرانی صورتِ حال کی عکاسی کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال پہلے کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو بیرون ممالک پاکستانی قیدیوں کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دو سال میں بیرون ممالک قیدیوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہو۔ حکومت سے پوچھا جانا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا۔
سارہ بلال نے کہا کہ حکومت کو بیرون ممالک قیدیوں کے حوالے سے بڑے پیمانے پر حکمتِ عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس میں ممالک کے ساتھ قیدیوں کی منتقلی کے معاہدے کرنا اور جن ممالک کے ساتھ معاہدے ہیں وہاں سے قیدیوں کی جلد منتقلی کا طریقہ کار وضع کرنا چاہیے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ بات قابلِ تشویش ہے کہ سعودی عرب اور امارات کے ساتھ قیدیوں کی منتقلی کے معاہدے ہونے کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں ان ملکوں میں قید پاکستانیوں کو واپس کیوں نہیں لایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی سفارت خانے کے عملے کو بھی تربیت دینا ہو گی کہ وہ قیدیوں کو قانونی معاونت دے سکیں اور انہیں وطن واپس لانے کے عمل کو جلدی مکمل کر سکیں۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان مختلف ملکوں میں قیدیوں کے جرائم، ان کی منتقلی کے معاہدے اور قونصلر تک رسائی نیز انہیں تحفظ فراہم کرنے جیسی تفصیلات کی بنیاد پر اعداد و شمار جمع کرتا ہے۔
'کوشش ہے کہ قیدیوں کو جلد پاکستان لایا جا سکے'
پاکستان کی موجودہ اور گزشتہ حکومتیں بھی اس بارے میں اعلانات کرتی رہی ہیں کہ بیرون ممالک قید پاکستانیوں کو واپس لانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم اس کے باوجود ان کی تعداد میں اضافہ ماہرین کے مطابق حکومتی اعلانات کی نفی کرتا ہے۔
دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے وائس آف امریکہ کے سوال پر بتایا کہ پاکستان کے سفارت خانے بیرون ممالک قید ان پاکستانی قیدیوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور انہیں قانونی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ دفتر خارجہ نے ان پاکستانیوں کو واپس لانے کی اپنی کوششوں سے پارلیمنٹ کو بھی آگاہ کیا ہے۔
ممتاز زہرا نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہم بیرون ممالک مقیم، کام کرنے والے اور سیاحت کے لیے جانے والے پاکستانیوں کو بھی تاکید کرتے ہیں کہ ان ممالک کے قوانین پر عمل کریں اور وہاں کے کلچر کا احترام کریں۔
خیال رہے کہ خلیجی ممالک کی حکومتیں پاکستان سے شکایت کرتی رہی ہیں کہ پاکستانی شہری ان کے ممالک میں غیر قانونی سرگرمیوں اور مقامی اقدار کی خلاف ورزیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کے علاوہ پاکستان کے آذربائیجان، ایران، جنوبی کوریا، سری لنکا، تھائی لینڈ اور ترکیہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے موجود ہیں۔