سندھ کی جیلوں میں بدلے کے قیدی

کسی اور مجرم کی جگہ سزا کاٹںے والا عبداللہ،

سندھ کے علاقے گھوٹکی کا رہائشی عبداللہ جب 2015 میں جیل جا رہا تھا تو اس سے محراب شر نامی اس کے دوست کے دوست نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک ہفتے میں جیل سے باہر ہو گا اور اس کے بدلے میں اسے مکان بنا کر دیا جائے گا۔

عبداللہ کو اپنی غربت سے نکلنے کا یہ آسان راستہ نظر آیا اور پھر اس کا شناختی کارڈ تبدیل کر کے اس کی تصویر استعمال کرتے ہوئے کوائف محراب شر کے ڈال دئیے گئے۔ محراب کو عدالت کی جانب سے اغواء اور پولیس مقابلوں جیسے سنگین جرائم میں قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

عبداللہ کی رہائی کا وعدہ ایک ہفتہ تو کجا کئی سال بعد بھی وفا نہ ہوا اور محراب شر اس کے بعد سے غائب ہو گیا۔ جیل میں قید عبداللہ کو جلد ہی اپنی لالچ اور غلطی کا احساس تو ہو گیا لیکن اب اس کے بس میں کچھ نہ تھا۔

لگ بھگ چار سال جیل میں رہنے کے بعد جب وہ اپنی رہائی سے مایوس ہو چکا تھا تو گزشتہ ماہ اس کے متعلق خبر ایک مقامی اخبار میں چھپی۔ اس پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی ایم شیخ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کیس کا ریکارڈ اور قیدی کو پیش کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے جیل حکام کا موقف سننے اور نادرا رپورٹ سامنے آنے کے بعد فوری طور پر عبداللہ کو رہا کرنے کا حکم دیا۔

عبداللہ کا کہنا ہے کہ اس کے والدین حیات نہیں اور نہ ہی کوئی بہن بھائی ہیں لیکن ہائی کورٹ کی جانب سے رہائی سے اسے ایک نئی زندگی ملی ہے۔ اور وہ پھر سے اپنی زندگی گزارے گا لیکن اس کا کہنا ہے کہ اب وہ لالچ میں آ کر اپنی آزادی سلب نہیں کرائے گا۔

عدالت نے شناختی کارڈ بنانے کے عمل میں جعل سازی پر وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کو واقعے کی تحقیقات اور ذمہ داران کا تعین کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے جب کہ عدالت نے اس پورے معاملے میں ہونے والی کوتاہی پر پولیس حکام سے بھی الگ رپورٹ طلب کر لی ہے۔

کیا یہ واقعہ پہلی بار رونما ہوا ہے؟

عبداللہ کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ صوبے میں اپنی نوعیت کا شاید کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے واقعات صوبے میں پہلے بھی رپورٹ ہو چکے ہیں۔

چند سال قبل ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سندھ کی کئی جیلوں میں درجنوں بے گناہ افراد سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ان کی جگہ اصل مجرم جیل سے باہر آزاد ی سے گھوم رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے انصار برنی ٹرسٹ کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی گئی جس میں اس معاملے پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے جواب طلب کیا گیا تھا۔

اس ادارے نے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایسے افراد کی تعداد 40 کے لگ بھگ ہے جو اصل مجرموں کے بجائے جیل کاٹ رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ادارے سے منسلک وکیل شگفتہ برنی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ اس کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے تحت اب تک تین جیلوں میں بائیو میٹرک سسٹم لگایا جا چکا ہے جس سے قیدیوں کے ریکارڈ میں شفافیت کو برقرار رکھنے میں مدد ملنی شروع ہو گئی ہے۔ تاہم صوبے کی اب بھی 22 جیلوں میں یہ نظام نصب ہونا ابھی باقی ہے، جس کے لئے شگفتہ برنی ایڈوکیٹ کے بقول حکومت کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔

معروف وکیل اور سابق جج، بیرسٹر خواجہ نوید کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں پیسے اور عملے کی ملی بھگت کا عمل دخل بھی بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔ وہ مجرم جن کے پاس پیسہ ہوتا ہے، وہ اہل کاروں اور جیل افسران سے ساز باز کر کے سزا سے بچ کر باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں جیل حکام یا پولیس کی محض غلطی ہونے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم شاطر مجرموں کی جانب سے اپنے کوائف میں تبدیلی کر کے معصوم افراد کو جیل میں اپنی جگہ رکھا جا سکتا ہے جیسا کہ عبداللہ کے واقعے میں ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد بھی ایسا ہونا ایک عجوبے سے کم تو نہیں ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ملک میں جیلوں کا نظام بہتر بنانے کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ جس کا نتیجہ انسانی حقوق کی پامالی روکنے اور جرائم کی بیخ کنی کی بجائے اس کے بڑھاوے کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ جیلوں کے نظام کو فوری طور پر اپ گریڈ کیا جائے اور اسے شفاف تر بنایا جائے۔

ادھر جیل حکام کا کہنا ہے کہ دیگر جیلوں میں بھی بائیو میٹرک تصدیق کا نظام جلد نصب کیا جائے گا تاکہ ملزمان کا ریکارڈ رکھنے میں شفافیت لائی جا سکے۔