مالی سال 16-2015 ء کے لئے 739 ارب روپے کا صوبہٴسندہ کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے۔ سندھ کے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے ہفتے کو سندھ اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ727 ارب روپے حاصل کئے جائیں گے، جبکہ 739 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے، اور یوں، بجٹ خسارہ تقریباً 12 ارب روپے کا ہوگا۔
بجٹ تقریر کے دوران، حسب مخالف کے ارکان شور مچاتے رہے اور اسپیکر آغا سراج درانی انھیں خاموش کراتے رہے۔
وزیر خزانہ نے وفاقی حکومت سے گذارش کی ہے کہ صوبے کو اس کے حصے کے پیسے بر وقت ادا کیے جائیں۔ انھوں نے دوسرے ارکان سے بھی درخواست کی کہ وہ بھی سندھ کے لئے آواز اٹھائیں۔
سندہ اسمبلی میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف، خواجہ اظہار الحسن نے بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سندھ کے لوگوں کو حقائق سے آگاہ کریں‘۔ بقول اُن کے ’ہماری سیاسی دشمنی نہیں ہے۔ ہم عوام کے مفادات کے خلاف ہونے والے اقدامات کی مخالفت کریں گے‘۔
ایک بیان میں، متحدہ قو می موومنٹ نے اتوار کو بجٹ کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
ادھر، مالی امور کے ماہر خرم شہزاد نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام آدمی پہ بجٹ میں تعلیم، صحت اور ترقیاتی اور تعمیری کاموں کا براہ راست اثر ہوتا ہے۔ ان کے لئے بجٹ میں کافی پیسے رکھے گئے ہیں۔ لیکن، دیکھنا یہ ہے کہ سال کے آخر میں عوام کو اس کا کتنا فائدہ ہوتا ہے‘۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بجٹ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمیں اعداد و شمار اور گنجلک باتوں سے کوئی سر و کار نہیں۔ ہمیں تو بس اس مہنگائی اور محدود وسائل میں گزارے کی فکر ہے‘۔