تھرپارکر میں کارونجھر کے پہاڑوں کی نیلامی، سخت تنقید پر ٹینڈر واپس

پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپار کی کارونجھر پہاڑیوں سے گرینائٹ نکالنے کے لیے نیلامی کا فیصلہ سول سوسائٹی اور سیاسی رہنماؤں کی مخالفت کے بعد واپس لے لیا گیا ہے۔

20 جولائی کو حکومتِ سندھ کے محکمے مائنز اینڈ منرلز ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے اخبارات میں ایک اشتہار شائع ہوا تھا۔

اشتہار میں ضلع تھرپارکر کے علاقے ننگرپارکر کی کارونجھر پہاڑیوں سے گرینائٹ کی مائننگ لیز کے آکشن کے لیے ٹینڈر جاری کیا گیا تھا۔

اس نیلامی کے لیے 31 جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ تاہم سول سوسائٹی، سیاسی اور سماجی رہنماؤں اور خود برسر اقتدار پیپلز پارٹی کے اندر اس کی مخالفت کے باعث صوبائی حکومت یہ ٹینڈر واپس لینے پر مجبور ہو گئی ہے۔

اشتہار کے مطابق ضلع تھرپارکر کی تحصیل ننگر پارکر کے 17 مقامات پر واقع تقریباً 6 ہزار ایکڑ رقبے پر گرینائٹ کی مائننگ کا آکشن کیا جا رہا تھا۔

یہ لیز 10 برس کے لیے جاری کی جا رہی تھی اور ہر دو برس بعد یہاں مائننگ لائسنس کی تجدید بھی کرانا پڑتی۔

حکومت کو اس مد میں کرائے کے علاوہ، رائلٹی، ایکسائز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور دیگر حکومتی ٹیکسز بڑے پیمانے پر وصول ہونے کی توقع تھی۔

ٹینڈر نوٹس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آکشن کی جانے والی زمین پر موجود جنگلات، رہائشی اور زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی زمینوں پر مائننگ کی اجازت نہیں ہو گی۔

اشتہار کے شائع ہونے کے بعد علاقے کی سول سوسائٹی نے اس پر احتجاج کیا اور وہاں مائننگ کی اجازت دینے کی شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے اور حکام سے اس عمل کو روکنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

مائننگ کی اجازت اور یہاں آکشن کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ مختلف جنگلی حیات کا مسکن ہے.

ناقدین کا کہنا ہے کہ ہندو اور جین مت کے علاوہ یہاں مسلمانوں کے بھی بعض تاریخی مقامات ہیں۔

منصوبے پر اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کان کنی سے ان مقامات کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ماحولیاتی تباہی ہو گی اور حال ہی میں یہاں پانی کی کمی کو کسی حد تک پورا کرنے کے لیے تعمیر کیے گئے ڈیموں کو بھی نقصان پہنچے گا۔

سول سوسائٹی کے کارکنوں نے الزام عائد کیا ہے کہ کچھ بااثر لوگوں کی تجوریوں کو بھرنے کے لیے کان کنی کے حقوق کو نیلام کر کے قدرتی خوبصورتی اور قدرتی پہاڑی سلسلے کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

جین مت کا ورثہ

سماجی کارکن اور آل پاکستان ہندو مندر مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین کرشن لال شرما کا کہنا ہے کہ کارونجھر کا علاقہ مقامی لوگوں کی ثقافتی، سماجی، مذہبی اور معاشی زندگیوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت کے اپنے مائنز اینڈ منرل ایکٹ کی سیکشن 3 کی سب سیکشن 2 ایسے کسی بھی علاقے میں کان کنی سے منع کرتا ہے۔

اُن کے بقول کان کنی سے اس علاقے کی قدرتی خصوصیات، آرکیالوجی، ایکولوجی اور ماحولیات کو نقصان پہنچے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماہر ین ارضیات کے خیال میں کارونجھر پہاڑی سلسلہ کم از کم ایک ارب سال پرانا ہے جب کہ پاکستان میں جین مذہب کے ورثے کا بہت بڑا حصہ کارونجھر پہاڑ کے آس پاس کے علاقوں ہی میں پایا جاتا ہے۔

اس میں ایسی ہندوؤں کے مذہبی مقامات بھی ہیں جو صدیوں پرانی مذہبی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس لیے ہندو مذہب کے ماننے والوں کی اس علاقے سے جذباتی وابستگی ہے۔

'کارونجھر سے لوگوں کا دلی لگاؤ اور معیشت بھی وابستہ ہے'

کرشن لال شرما کا مزید کہنا تھا کہ مقامی لوگوں کے لیے بھی یہ علاقہ اہمیت کا حامل ہے۔

اُن کے بقول زمین کی اوپری سطح کی طرح زمین کے اندرونی حصے میں بھی گرینائٹ کے پہاڑ موجود ہیں اور ایسے میں ننگرپارکر میں زیر زمین پانی دستیاب نہیں۔

اُن کے بقول ایسی صورت میں پہاڑوں پر ہونے والی بارش کے پانی ہی کی صورت میں یہاں تھوڑی بہت زراعت اور لوگوں کے زندہ رہنے کے لیے پانی دستیاب ہو پاتا ہے۔

کرشن لال شرما نے بتایا کہ اس علاقے میں سالانہ بارش صرف 200 سے 300 ملی میٹر تک ہوتی ہے اور اس میں سے بھی صرف ڈیڑھ فیصد پانی ہی یہاں ذخیرہ ہوپاتا ہے۔

کرشن لال شرما نے الزام عائد کیا کہ طاقت ور لوگ یہاں مائننگ کرکے اربوں روپے کمانا چاہتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ مقامی افراد کا روزگار بھی ان پہاڑوں سے وابستہ ہے اور اگر یہ ذرائع بھی ختم کر دیے جائیں تو پھر ان کا گزارا کیسے ممکن ہو پائے گا۔

اُن کے بقول پہلے ہی یہ علاقہ تھرکول پاور پلانٹس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی سمیت مختلف مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔

پاکستان میں گرینائٹ کے وسیع ذخائر

گرینائٹ عمارتوں کی تعمیر میں استعمال کیا جانے والا قیمتی پتھر ہے جو عمارتوں کی خوبصورتی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

پاکستان کو دنیا بھر میں ماربل اور گرینائٹ کے ذخائر رکھنے والا چھٹا بڑا ملک شمار کیا جاتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں ان کے مجموعی ذخائر 297 ارب ٹن تک ہیں۔

اس بارے میں تیار کی جانے والی ایک فیزیبلٹی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ صرف کارونجھر کے علاقے میں تقریباً 26 ارب ٹن گرینائٹ کے ذخائر موجود ہیں۔

اس سے قبل دسمبر 2021 میں بھی ننگرپارکر کی ایک سول عدالت نے کارونجھر پہاڑی سلسلے میں کان کنی کے عمل کو فوری طور پر روکنے کا حکم دیتے ہوئے اسے لوگوں کے لیے تشویش کا باعث قرار دیا تھا۔

یہ کان کنی فوج کے انجینئرنگ ونگ ایف ڈبلیو او ایک نجی کمپنی کے ساتھ مل کر سندھ حکومت کی لیز پر کر رہی تھی۔ تاہم گزشتہ ہفتے حکومت سندھ نے کارونجھر پہاڑیوں کے علاقے کی 5000 ایکڑ سے زیادہ اراضی پر گرینائٹ کی کان کنی کی نیلامی کے لیے تازہ اشتہار جاری کیا ہے۔

ایک اور سماجی کارکن فقیر منور ساگر ایڈووکیٹ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پورے علاقے کو نیشنل پارک قرار دے تاکہ اس علاقے میں گرینائٹ سمیت مختلف معدنیات کا سلسلہ مکمل طور پر بند کیا جائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس سے یہاں کی جنگلی زندگی کو جہاں تحفظ ملے گا وہیں تھرپارکر میں پانی کو جمع کرنے کے لیے حال ہی میں بنائے گئے ڈیموں کو بھی تحفظ مل پائے گا۔

دوسری صورت میں پہاڑوں کو کاٹنے سے یہاں ماحولیاتی مسائل میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔

سخت تنقید کے بعد حکومت ٹینڈر واپس لینے پر مجبور

صوبائی وزیر برائے مائنز اینڈ منرل میر شبیر علی بجارانی نے سندھ اسمبلی میں اپنے پالیسی بیان میں کہا ہے کہ محکمہ مائنز ننگرپارکر کے کارونجھر پہاڑ پر کسی بھی قسم کی کان کنی کی اجازت نہیں دے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے صوبے کا اہم ورثہ ہے جس کے ساتھ وہاں کے لوگوں کا لگاؤ اور وابستگی ہے۔

سوشل میڈیا پر صارفین سوال اٹھارہے ہیں کہ ٹینڈر جاری کرنے کے بعد اسے واپس لینے کی کی نوبت ہی کیوں آئی اور ٹینڈر جاری کرنے سے قبل یہ سب کیوں نہ سوچا گیا۔