"کابل میں ہر طرف غیر یقینی کی صورتِ حال ہے۔ ہر طرف فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں اور کسی کو کچھ پتا نہیں کہ اس فائرنگ کا مقصد کیا ہے۔ جنگ سے قبل ہر کوئی جان بچانے کی غرض سے کابل کا رُخ کرتا تھا۔ اب طالبان نے کابل کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے جس کے بعد افراتفری ہے اور کسی کو سمجھ نہیں آ رہا اب کہاں جائیں۔"
یہ الفاظ ہیں کابل میں مقیم نوجوان خاتون صحافی خدیجہ امین کے جو افغانستان کی صورتِ حال کے باعث خود بھی غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
افغانستان کے سرکاری ٹی وی 'آر ٹی اے' سے منسلک صحافی خدیجہ امین نے بتایا کہ اتوار کو جب طالبان کابل میں داخل ہوئے تو وہ معمول کے مطابق دفتر میں موجود تھیں۔
اُن کے بقول دوپہر کو انہیں بتایا گیا کہ جلدی سے اپنا سامان لیں اور گھر چلی جائیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خدیجہ نے مزید بتایا کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں اور اُنہیں اب اپنی نوکری جانے کا خدشہ ہے۔
خدیجہ امین کا کہنا تھا کہ ایک خاتون ہونے کے ناطے وہ اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔
اُن کے بقول گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں ترقی پسند سوچ پروان چڑھی تھی اور خواتین بھی اب مردوں کے شانہ بشانہ مختلف شعبوں میں کام کر رہی تھیں۔
البتہ خدیجہ اب پریشان ہیں کہ طالبان شاید خواتین کو گھر سے باہر کام کرنے یا اُنہیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہ دیں۔
گو کہ طالبان کہہ چکے ہیں کہ وہ خواتین کی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں اور خواتین کے حقوق کا بھی تحفظ کریں گے۔ تاہم کچھ حلقے اب بھی طالبان کی اس یقین دہانی پر شکوک و شہبات کا اظہار کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان جو کہہ رہے ہیں کیا ویسا ہی ہو گا اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔
کیا اشرف غنی کو موردِ الزام ٹھیرانا درست ہے؟
افغانستان میں حکومتی فورسز کے ہتھیار ڈالنے کے عمل اور طالبان کی برق رفتاری نے جہاں ایک جانب پوری دنیا کو حیران کیا ہے وہیں کچھ ماہرین صدر اشرف غنی کو بھی اس کا مورد الزام ٹھیراتے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھی تسلیم کیا ہے کہ امریکہ نے جس افغان فوج کو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تربیت کے ساتھ ساتھ جدید اسلحے سے لیس کیا ان کی طاقت کا صحیح معنوں میں اندازا نہیں لگایا جا سکا۔
افغانستان میں پاکستان کے سفیر اور تجزیہ کار رستم شاہ مہمند کے مطابق اشرف غنی اپنی افواج کا مورال بڑھانے میں ناکام رہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب طالبان پے در پے اضلاع پر قبضے کر رہے تھے تو اشرف غنی کے پاس مفاہمت کا راستہ تھا جسے انہوں نے ضائع کر دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر اشرف غنی کا افغان عوام کو چھوڑ کر بھاگنا نہ صرف افغان روایت کے خلاف ہے بلکہ اس کے بعد طالبان نے بغیر کسی مزاحمت کے پورے افغانستان کا کنٹرول حاصل کر لیا۔
البتہ ایک بیان میں اشرف غنی نے وضاحت کی ہے کہ اُنہوں نے خون خرابے سے بچنے کے لیے ملک سے باہر جانے کو ترجیح دی۔
'طالبان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہو گا'
رستم شاہ مہمند کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کو ابھی اپنی حکومت بنانی ہے۔ انہیں اپنا گورننس سسٹم بہتر کرنا پڑے گا۔ دنیا کے ساتھ انہیں مل کر کام کرنا ہو گا اور عالمی ضروریات کے تحت انہیں اپنی پالیسی مرتب کرنا ہے۔
افغان جنگجو سردار اسماعیل خان کی مثال دیتے ہوئے رستم شاہ مہمند نے کہا کہ وہ ہرات میں طالبان کے خلاف لڑتے رہے۔ تاہم جب اُنہوں نے ہتھیار ڈال دیے تو طالبان نے اُنہیں کچھ نہیں کہا اور اب بھی وہ ہرات میں ہی رہ رہے ہیں۔
افغان امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں مقیم تمام سیاسی دھڑوں سے رابطے میں ہیں اور وہ ایک ایسی حکومت پر یقین رکھتے ہیں جس میں تمام طبقوں کی نمانئدگی ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی بحالی اور تعمیرِ نو کے بنیادی مسائل کا طالبان کو فوری سامنا ہے اور وہ اسی صورت میں حل ہو سکتے ہیں جب طالبان عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی 60 فی صد سے زائد آبادی غربت کا شکار ہے۔ افیون کی پیداوار کے باعث لاکھوں افراد نشے کے عادی ہو گئے تھے۔ اس لیے طالبان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کابل میں خوف اور کنفیوژن کے سائے
دوسری جانب طالبان کے قبضے کے دوسرے دن کابل میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ طالبان گاڑیوں اور ٹینکوں میں شہر کا گشت کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام کاروباری مراکز بند ہونے اور خوف کے باعث لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل رہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے سے منسلک کابل میں موجود پاکستانی صحافی انس ملک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہر میں خوف کی فضا ہے۔ خواتین سڑکوں پر کم ہی نظر آ رہی ہیں جب کہ ایئر پورٹ کی طرف جانے والے راستے بند ہیں۔
انس ملک کا مزید کہنا تھا کہ شہر میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں بھی سنائی دی ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو پا رہا ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے؟
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان عوام کے لیے بھی طالبان کا اتنی جلدی کابل کا کنٹرول سنبھالنا حیران کن تھا۔
افغان امور کے ماہر اور شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق، عبدالسید کا کہنا ہے کہ طالبان کا بغیر کسی خون خرابے کے چند دنوں میں کابل کے صدارتی محل تک پہنچنا اور صدر اشرف غنی کا اپنے ساتھیوں سمیت پراسرار طور پر افغانستان سے نکلنے پر ہر کوئی حیران ہے۔
عبدالسید کے مطابق طالبان نے آتے ہی بہت جلد عوام کے دل و دماغ میں موجود اپنے متعلق پائے جانے والے خوف کو کافی حد تک کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اُنہیں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔