پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان پیر کو ہونے والی جھڑپوں کے بعد منگل کو حالات بظاہر پر امن اور معمول کے مطابق ہیں مگر مقامی لوگوں میں اس واقعے کے بعد بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے شمالی وزیرستان کے دو مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں سے جھڑپوں میں 10 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی جس میں ایک کیپٹن سمیت پانچ اہلکار اور چار مسلح افراد شامل تھے۔
اس واقعے میں ہلاک ہونے والے کیپٹن عبدالولی سمیت دیگر اہلکاروں کی لاشیں پیر کو ہی اپنے اپنے علاقوں کو روانہ کر دی گئی تھیں جب کہ زخمی اہلکار پشاور اور بنوں کے فوجی اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
شمالی وزیرستان کے مرکزی انتظامی شہر میران شاہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی حاجی مجتبیٰ کے مطابق علاقے میں حالات بظاہر معمول کے مطابق ہیں، تمام تر بازار کھلے ہیں، تجارتی سرگرمیاں بحال ہیں اور تعلیمی اداروں سمیت سرکاری اداروں کے دفاتر بھی کھلے ہیں مگر اندرونی طور پر لوگوں میں پہلے سے موجود تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے بقول حکومتی دعووں کے برعکس علاقے میں عسکریت پسند موجود ہیں جو مقامی افراد کی تشویش میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
SEE ALSO: ٹی ٹی پی کی واپسی کی اطلاعات؛ سوات کے مختلف مقامات پر پولیس چیک پوسٹس قائموائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حاجی مجتبیٰ نے بتایا کہ میران شاہ کو دیگر علاقوں سے ملانے والی سڑکوں پر سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر کی شوریٰ مجاہدین کو ایک مؤثر عسکریت پسند گروپ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس گروپ کے خلاف جون 2014 کے وسط میں 'آپریشن ضربِ عضب' کے نام سے کارروائی کی گئی تھی۔ اس کارروائی کے نتیجے میں ہزاروں قبائلی خاندان سرحد پار افغانستان نقل مکانی کر گئے تھے ان خاندانوں میں حافظ گل بہادر کے وفادار جنگجوؤں کے خاندان بھی شامل تھے۔
شمالی وزیرستان میں پیر کو ہونے والی جھڑپ کے بعد آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کے قبضے سے بڑی مقدار میں جدید خودکار اسلحہ اور بارودی مواد برآمد ہوا ہے۔ اس بیان میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں مطلوب کمانڈر طفیل کو بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا جس پر سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں سمیت دیگر وارداتوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
حالیہ چند ہفتوں کے دوران شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کی موجودگی سے متعلق مقامی افراد اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
حاجی مجتبیٰ کے مطابق گزشتہ ماہ شمالی وزیرستان میں گھات لگا کر قتل کی پے در ہے وارداتوں کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں کے سینکڑوں کارکنوں نے تین مختلف علاقوں میں دھرنا دیا تھا۔ تاہم وفاقی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل وفد نے دورہ کر کے مظاہرین کو احتجاجی دھرنا ختم کرنے پر راضی کر لیا تھا۔
'کالعدم تنظیم کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ برقرار رہے گا'
خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلٰی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کہتے ہیں کہ مقامی انتظامیہ کو سیکیورٹی سخت کرنےاور مشکوک افراد پر نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فوجی افسر اور دیگر اہلکاروں کی ہلاکت پر حکومت کو بہت افسوس ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ تشدد اور دہشت گردی کے واقعات کے باوجود کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مئی کے اوائل میں ہونے والا جنگ بندی معاہدہ برقرار ہے۔