حماس کی جانب سے اسرائیل پر اچانک اور بیک وقت زمینی، فضائی اور سمندر سے شدید حملوں اور بڑے پیمانے پر جانی اور مادی نقصانات نے اسرائیل کو ششدر اور دنیا کو حیران کر دیا ہے۔اسرائیل کے کئی فوجیوں نے میڈیا انٹرویوز میں ہفتے کی علی الصبح کے ان لمحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کے سینکڑوں جنگجوؤں کا بھرپور تیاری کے ساتھ دھاوا بولنا ایک چونکا دینے والا اور نہ بھولنے والا واقعہ ہے۔
اسرائیل اور غزہ کے درمیان 20 فٹ اونچی آہنی باڑ حائل ہے جس سے گزرنے کے لیے چیک پوسٹیں ہیں۔ تقریباً 18 ہزار فلسطینی ، جن کے پاس داخلے کے پرمٹ ہیں، ان چیک پوسٹوں کے راستے روزانہ کام کرنے اسرائیلی علاقوں میں جاتے ہیں۔
سن 2007 کے بعد سے، جب سے حماس نے غزہ کا کنڑول سنبھالا ہے، اس باڑ کے ساتھ ہونے والی چھوٹی بڑی جھڑپوں اور تنازعات میں سینکڑوں فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیل اس باڑ کو فولادی دیوار قرار دیتا ہے اور ناقابل تسخیر سمجھتا ہے۔
باڑ کے اندر گھرے ہوئے غزہ کو فلسطینی ایک بڑا قید خانہ سمجھتے ہیں اور دنیا محصور شہر کا نام دیتی ہے۔حماس کے ساتھ تصادم اور جھڑپوں کے ان گنت واقعات کے باعث 23 لاکھ فلسطینوں کے محصور شہر غزہ کی اسرائیل نے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
اگرچہ ناکہ بندی کا مقصد عسکریت پسندوں تک اسلحے اور گولہ بارود کی فراہمی روکنا ہے، لیکن حکام اسے فلسطینیوں کو خوراک، بجلی اور پانی تک کی فراہمی روکنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
آہنی باڑ کے ساتھ چیک پوسٹوں پر تعینات اسرائیلی فوجی حماس کی تاریخ کے سب سے بڑے حملے کو ناقابل فراموش قرار دے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہفتے کی صبح سویرے 1500 سے زیادہ عسکریت پسند پک اپ ٹرکوں اور موٹر سائیکلوں پر سوا ہو کر باڑ کی طرف تیزی سے بڑھے۔ ان کےساتھ نشانچی بندوق بردار تھے جو ہدف باندھ کر گولیاں چلا رہے تھے۔
انہیں اسرائیل کی جانب داغے جانے والے ہزاروں راکٹوں کا تحفظ حاصل تھا۔ ان کے سروں پر ڈرون پرواز کر رہے تھے جو فوجیوں پر بم گرا رہے تھے۔
حملہ کرنے والے اپنے ساتھ کئی بلڈوزر بھی لائے تھے جو فولای باڑ کو گراکررکاوٹوں کو ہٹا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سمندری راستے سے بھی اسرائیلی علاقے کی جانب پیش قدمی کی۔ وہ تیز رفتار موٹر بوٹس پر سوار تھے۔
اسرائیل کی ایک خاتون فوجی نے، جو اس حملے میں زخمی ہوئیں، اسپتال کے بستر سے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کے ساتھ اپنے انٹرویو میں بتایا کہ میں غزہ کےپاس اسرائیلی قصبے نہال اوز میں تعینات تھی۔ صبح ساڑھے چھ بجے راکٹ گرنے شروع ہوئے۔ اس کے بعد لگ بھگ 30 جنگجوؤں کے گروپ نے تیزی سے فوجی چوکی پر قبضہ کر لیا اور ایلیٹ فوجی دستے کے آنے تک، تقریباً 7 گھنٹے تک چوکی پراپنا تسلط قائم رکھا۔
فوجی خاتون نے، جس نے اپنا نام پوشیدہ رکھتے ہوئے خود کو حرف ’وائی‘ سے متعارف کرایا تھا، بتایا کہ ان ناگہانی لمحات میں ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنی جان بچانے کے لیے فرار ہو جائیں۔
انہوں نے کہاہمیں ایک بنکر میں پناہ لینے کے لیے ننگے پاؤں بھاگنا پڑا۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہمیں ان کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ وہ عربی بول رہے تھے اور فائرنگ کر رہے تھے۔ انہوں نے فوجی چوکی کو حماس کا کیمپ آفس بنا لیا تھا۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ نشانچی عسکریت پسندوں نے حملے کے ابتدائی لمحات میں 40 میل طویل آہنی باڑ کے ساتھ قائم نگرانی کی چوکیوں پر فائرنگ کی۔
ایک چوکی پر تعینات ایک فوجی نے بتایا کہ بندوق برداروں نے نگرانی کے کیمروں پر بھی فائرنگ کر کے انہیں نقصان پہنچایا جس کے بعد یہ ہوا کہ ہمارے لیے سیکیورٹی کیمروں کی مدد سے سرحد کی نگرانی کرنا ممکن نہیں رہا۔
اسرائیل کی ایک آزاد نیوز ویب سائٹ ’حماکام ‘ پر شائع ہونے والے تبصروں میں ایک فوجی نے اپنا نام پوشیدہ رکھتے ہوئے کہا کہ جب ہماری چوکی پر حملہ ہوا تو ہمیں بتایا گیا کہ اس وقت ہمارے پاس واحد یہ آپشن باقی رہ گیا ہے کہ اپنی جانیں بچانے کے لیے محفوظ مقام کی طرف بھاگ جائیں۔
سوشل میڈیا کی پوسٹس اور میڈیا انٹرویوز میں کئی دوسرے فوجیوں نے بتایا کہ پہلے بڑے ہلے میں عسکریت پسندوں نے رکاوٹیں توڑ ڈالیں اور مواصلاتی نظام کو معذور کر دیا۔
تاہم فوجی ترجمان نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے فوجی الیکٹرانک سسٹم پر سائبر حملوں کو افواہیں قرار دے کر مسترد کر دیا۔
حماس کے بڑے حملے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز اور تصاویر گردش کر رہی ہیں ۔ زیادہ تر فوٹیج اور تصاویر ڈرونز میں نصب کیمروں سے لی گئیں ہیں جن میں واچ ٹاورز پر دھماکہ خیز مواد گرتے ہوئے، فولادی باڑ کو دھماکے سے ہوا میں اڑتے ہوئے اور بلڈوزروں سے بارڑکاٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی قومی سلامتی کے سابق مشیر ریٹائرڈ جنرل باکوف امیدرور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے انٹیلی جنس اور فوجی آلات کی بہت بڑی ناکامی ہے۔
انسٹا گرام پر پوسٹ کی گئی ایک فوجی کی پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ میں صبح سویرے ہونے والے حملے کو ایک انتہائی ڈراؤنے خواب کے سوا کچھ اور نہیں کہہ سکتا۔
ایک خاتون فوجی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیں حیران کر دیا جس کے لیے ہم تیار نہیں تھے۔وہاں کوئی انٹیلی جنس نہیں تھی۔
بیری کبوٹز نامی اسرائیلی بستی میں رہنے والے 58 سالہ انبال ریخ ایلون کا کہنا تھا کہ بہت سال پہلے انہوں نے یہ آہنی باڑ نصب کی تھی اور ہم خود کو محفوظ سمجھنے لگے تھے۔ لیکن اب احساس ہو رہا ہے کہ وہ ہمارا وہم تھا۔
(اس تحریر کے لیے کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔)