بھارت نے پاکستان کو کرکٹ ورلڈ کپ کے ایک اور مقابلے میں بھاری شکست دے کر عالمی مقابلوں میں مسلسل آٹھویں کامیابی حاصل کر لی جس پر جہاں بھارتی شائقین خوش ہیں وہیں پاکستان میں گرین شرٹس کے مداح مایوس ہو گئے ہیں۔
پاکستان کی بھارت کے خلاف کارکردگی پر مبصرین کے ساتھ سوشل میڈیا صارفین بھی خوش نہیں۔ کسی نے پاکستانی بالرز کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تو کسی کے خیال میں اس شکست کے ذمہ دار بلے باز ہیں۔لیکن تقریبا تمام ہی سابق کرکٹرز اس بات پر متفق تھے کہ بھارت نے پاکستان کو مکمل طور پر آؤٹ کلاس کردیا۔
احمد آباد کے نریندر مودی کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں پاکستان کی پوری ٹیم 191 رنز پر ڈھیر ہو گئی اور جواب میں بھارتی ٹیم نے ہدف تین وکٹوں پر 31 ویں اوور میں حاصل کر لیا۔
بھارت کی کامیابی پر سابق بھارتی کرکٹرز بے حد خوش نظر آئے، وریندر سہواگ نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ 72 اوورز میں میچ کا فیصلہ آنا بھارت کی بالادستی کا ثبوت ہے۔
انہوں نے بھارتی کپتان روہت شرما اور جسپرت بمراہ کی تعریف کی اور کہا کہ انہوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
سابق پیسر عرفان پٹھان نے بھی بھارت کی کامیابی کے بعد کہا کہ پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کا کوئی موازنہ نہیں، بھارت پاکستان سے بہت آگے ہے۔
سابق کرکٹر آکاش چوپڑا نے بھارت کی جیت پر انہیں مبارک باد دی، وہیں سابق ویسٹ انڈین فاسٹ بالر اور کمنٹیٹر این بشپ بھی بمراہ کے مداح نکلے۔
سابق پاکستانی کرکٹر بازید خان نے کلدیپ اور جڈیجا کی بالنگ کو دونوں ٹیموں کے درمیان سب سے بڑا فرق قرار دیا۔ جب کہ شعیب اختر نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ اس شکست سے پاکستان کو سیکھنا چاہیے تاکہ اگلے میچوں میں اچھا کھیل پیش کرسکیں۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر اور چیف سلیکٹر محمد وسیم کے خیال میں بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ میں دفاعی انداز میں بیٹنگ کرکے پاکستان نےمیچ اپنے ہاتھ سے نکلنے دیا۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر تنویر احمد نے بھی دونوں ٹیموں کے اوپنرز کے بیٹنگ کے انداز کا موازنہ کرتے ہوئے سب سے بڑا فرق ٹھہرایا۔
سابق کھلاڑیوں کی طرح سوشل میڈیا صارفین اور صحافی بھی پاکستان کی شکست پر ٹیم پر برس پڑے۔ صحافی باسط سبحانی نے بھارت کی مسلسل آٹھویں کامیابی پر انہیں مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ایک بار پھر پاکستان ٹیم آؤٹ کلاس ہوگئی۔
بھارتی صحافی وکرانت گپتا کے مطابق اگر 25 اوورز سے کم میں بھی ایک ٹیم میچ جیت جائے تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ٹیموں میں کتنا فرق ہے۔
براڈکاسٹر عدیل اظہر کے خیال میں اس ورلڈ کپ میں ہر ٹیم کی کوشش ہوگی کہ بھارت کو شکست دے، پاکستان کو اگر اس میں اچھی کارکردگی دکھانا ہے تو اپنے کمبی نیشن کو بہتر کرنا ہوگا۔
انہوں نے موجودہ پاکستان ٹیم کو 2015 کے ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی انگلش ٹیم سے ملتا جلتا قرار دیا جسے نئے کھلاڑیوں کی آمد سے ہی ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔
صحافی رضوان علی نے بھی پاکستان کی آٹھویں شکست پر کہا کہ کچھ شکستوں کا سلسلہ ختم ہونا مشکل ہے اور پاکستان کا بھارت کے خلاف کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
ٹی وی اینکر اشفاق ستی نے شاداب خان کی بالنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ اتنا آؤٹ آف فارم بالر ہمارا نائب کپتان کیسے ہوسکتا ہے؟ جب کہ معروف فیشن ذیزائنر دیپک پروانی نے تو مذاق میں تجویز دے دی کہ اگر اس میچ پر پاکستان سٹہ کھیلتا تو اس سے حاصل ہونے والی رقم سے ملک کا سارا قرضہ اتر سکتا تھا۔
اسپورٹس صحافی شاہد ہاشمی نے کہا کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو پی سی بی چیف ذکا اشرف کو قومی ٹیم کے لیے خوش قسمتی کی علامت قرار دے رہے تھے۔