'کرکٹ ڈپلومیسی' کی اصطلاح عام طور پر پاکستان اور بھارت جیسے حریف ممالک میں استعمال ہوتی ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ماضی میں کئی بار جب دونوں جوہری ملکوں کے درمیان جنگ کے خطرات منڈلائے ہیں تو پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان کھیل نے یا ان میچوں کے دوران دونوں اطراف کی قیادت کے اسٹیڈیم میں ایک ساتھ بیٹھے نظر آنے سے کشیدگی کم ہوئی ہے۔
جنوبی ایشیا میں جن ملکوں کو اندرونی خلفشار کا سامنا ہے، وہاں سفارت کاری کے ساتھ ساتھ کرکٹ بھی سیاسی، مذہبی اور سماجی خلش کو کم کرتے ہوئے متحارب اکائیوں کو متحد کرتا نظر آتا ہے۔
کرکٹ: افغانستان کو جوڑنے والا کھیل
پاکستان کے بعد افغانستان میں بھی کرکٹ اس قدر مقبول ہو رہی ہے کہ تجزیہ کاروں کے بقول پہلی بار پشتون، تاجک ، ازبک حتیٰ کہ طالبان بھی، تمام دھڑے جب افغانستان کی کرکٹ ٹیم کی بات کرتے ہیں تو گروہی صف بندی سے آگے نکل کر "ہم اور ہمارا" کا صیغہ استعمال کرتے ہیں جو بہت بڑی تبدیلی ہے۔
میرویس افغان لندن میں سینیئر صحافی اور افغان امور کے تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کے لوگ کرکٹ کو پسند کرنے لگے ہیں اور کرکٹ افغانستان میں خوشی کا بڑا ذریعہ بن رہی ہے۔
ان کے بقول، "ہمارے ہاں میوزک نہیں، کانسرٹ نہیں، شوبز نہیں، ماڈلنگ نہیں۔ اگر کوئی چیز خوشی کا سبب بن رہی ہے تو وہ کرکٹ ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ کرکٹ پاکستان میں پناہ لینے والے افغان خاندانوں کے ذریعے افغانستان آئی ہے لیکن اب پورا ملک اس میں دلچسپی لینے لگا ہے۔
مریالے اباسین افغانستان میں ایک ٹی وی پروگرام کے میزبان اور کرکٹ کے شوقین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ورلڈ کپ سے پہلے افغانستان کی کرکٹ ٹیم کی کامیابیوں بالخصوص پاکستان کے خلاف پریکٹس میچ میں فتح نے پورے ملک میں لوگوں کے خون گرما دیے ہیں۔ بہت جوش وخروش ہے اور اُمیدیں بڑھ گئی ہیں۔
"جن لوگوں کو افغانستان کے حالات کا پتا نہیں وہ شاید یہ بات سمجھ ہی نہیں سکتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ کرکٹ نے لوگوں کو متحد کیا ہے۔ پہلی بار کوئی ایسی چیز سامنے آئی ہے جس پر کوئی پشتون ہو، ازبک ہو یا تاجک، حتیٰ کہ طالبان، سب اس کو اپنا مان رہے ہیں اور وہ "ہم اور ہمارا" کا کلمہ استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ہماری کرکٹ ٹیم جیتی ہے۔ ہم جیت گئے ہیں۔ یہ مشاہدہ بالکل درست ہے کہ طالبان بھی کرکٹ پسند کرتے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ جب افغانستان کی کرکٹ ٹیم کسی دوسرے ملک کے خلاف میچ کھیل رہی ہوتی ہے تو عام طور پر پورے ملک میں ایک پُرامن خاموشی ہوتی ہے۔
میرویس افغان کے بقول افغانستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنا سکیورٹی ہر جگہ جاتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کو سب فریق پسند کرتے ہیں۔
کرکٹ ڈپلومیسی اور پاک بھارت کشیدگی
کرکٹ نے جنوبی ایشیا کی دونوں جوہری طاقتوں - پاکستان اور بھارت - کے درمیان بھی تناؤ کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کرکٹ میچ میں شائقین کا جنون عروج پر ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کی ٹیمیں جب بھی ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتری ہیں تو سیاسی درجہ حرارت کم ہوا ہے۔ اس بارے میں سیاسی و سماجی علوم کے پاکستانی ماہر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کہتے ہیں،
"کرکٹ کا بنیادی تصور جنٹلمین گیم کا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اس کھیل نے میدانوں سے نکل کر سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ 80ء کی دہائی کے اواخر میں جب پاکستان بھارت تعلقات بہت کشیدہ تھے، پاکستان کے صدر جنرل ضیاءالحق میچ دیکھنے بھارت پہنچے اور راجیو گاندھی کے ساتھ اسٹیڈیم میں بیٹھے نظر آئے۔ اس پر 'کرکٹ ڈپلومیسی' کی اصطلاح سامنے آئی۔ اس کے بعد پاکستان کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے ہم منصب ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ بھارت میں ہی مل بیٹھ کر سیمی فائنل دیکھا۔ اس کے علاوہ جب بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم جیتتی ہے تو اندرونی سطح پر بھی ایک قومی احساس کے ساتھ تفاخر اجاگر ہوتا ہے۔"
ڈاکٹر عاصم کے بقول کرکٹ پاکستان کے علاوہ افغانستان میں بھی سیاسی اور سماجی اثر و نفوذ دکھا رہی ہے۔
"افغانستان میں بھی کرکٹ انتشار کے ماحول میں یکجائی کا کام کرتی نظر آتی ہے۔ ٹیم جب جیتتی ہے تو نسلی تفاوت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ کرکٹ کے کھیل کو اپنانے کے لیے سب یکجا نظر آتے ہیں۔"
گزشتہ ماہ عرب اخبار 'گلف نیوز' نے خبر دی تھی کہ ورلڈ کپ 2019ء کے دوران پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی ملاقات بھارت کے وزیرِ اعظم نریندرمودی سے ہو سکتی ہے۔
اخبار کے مطابق دونوں وزرائے اعظم ورلڈ کپ کے ابتدائی میچ دیکھنے کے لیے جون کے پہلے ہفتے میں انگلینڈ میں موجود ہوں گے اور برطانوی عہدیدار کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں رہنماؤں کی سائیڈ لائن ملاقات کا اہتمام ہو سکے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان بذاتِ خود عالمی شہرت حاصل کرنے والے کرکٹر ہیں جو پاکستان کے لیے 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان تھے۔