جنوبی کوریا: بچھڑے کوریائی خاندانوں کی تواتر سے ملاقاتوں کا مطالبہ

فائل فوٹو

جنوبی کوریا طویل عرصہ سے زیادہ ملاقاتوں اور ان میں شرکا کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ بہت سے بچھڑے خاندانوں کے لیے وقت کم ہے۔

کوریائی ممالک کے درمیان جنگ کے نتیجے میں بجھڑنے والے خاندانوں کی تازہ ترین ملاقات ختم ہونے کے بعد جنوبی کوریا تواتر سے ایسی ملاقاتیں ممکن بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

پیر کو 250 کے قریب جنوبی کوریائی شہری شمالی کوریا میں اپنے بچھڑے ہوئے عزیزوں سے ملنے کے بعد وطن واپس پہنچے۔ ایک ہفتہ جاری رہنے والی اس تقریب میں شمالی اور جنوبی کوریا سے سینکڑوں معمر افراد ساٹھ سال جدا رہنے کے بعد ایک دوسرے سے ملے تھے۔

جنوبی کوریا کے وزیراعظم ہوانگ کیو آہن نے اتوار کو کہا تھا کہ سیول تواتر کے ساتھ خطوط کے تبادلے اور ملاقاتوں کے اہتمام کے لیے ’’ایک کثیر جہتی کوشش شروع‘‘ کر رہا ہے۔

شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

شمالی کورین ریڈ کراس کے سربراہ ری چنگ بوک نے کہا کہ ’’یہ ہمارا مستقل مؤقف رہا ہے کہ دونوں کوریائی ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر ہونا چاہیئے۔ ہم تواتر سے ملاقاتوں کے اہتمام اور جنوبی کوریا کے شہریوں کے ساتھ خطوط کے تبادلے پر بات چیت کریں گے۔‘‘

جنوبی کوریا طویل عرصہ سے زیادہ ملاقاتوں اور ان میں شرکا کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اس کا موقف رہا ہے کہ بہت سے بچھڑے خاندانوں کے لیے وقت کم ہے۔

جنوبی کوریا کی یونیفیکیشن منسٹری کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی کوریا میں اپنے اہل خانہ سے ملنے کے منتظر جنوبی کوریا کے 66,000 معمر شہریوں میں سے 10 فیصد کی عمر 90 سال سے زیادہ ہے۔

کوریا انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل یونیفیکیشن میں ایک سینیئر محقق کم سو ایم نے کہا کہ ’’کم از کم خاندانوں کو باقاعدگی سے اپنے اہل خانہ کا اتا پتا معلوم کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے۔‘‘

سیول میں کچھ مبصرین دونوں کوریائی ممالک کے خراب تعلقات کے باعث شہریوں کے درمیان زیادہ ملاقاتوں کے بارے میں محتاط ہیں۔