جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں جمعہ کوڈرائیور کے بغیر چلنے والی بس روٹ کا آغاز ہوا۔ یہ ایک تجربے کا حصہ ہے جس کے بارے میں انجینئرز کا کہنا ہے کہ بغیر ڈرائیور کی گاڑیاں مسافروں کے لیے زیادہ آرام دہ ہوتی ہیں ۔
نئی خود کار گاڑی عام بس کی طرح نظر نہیں آتی ۔ اس کے کنارے گول ہیں اوراس کی کھڑکیاں بڑی ہیں جو کسی بس کی نسبت کھلونے کی طرح زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔
42 ڈاٹ پر خود کا ڈرائیونگ کے سربراہ جیونگ سیونگ گیون کا کہنا ہے کہ بس کے ڈیزائن کو خاص طور پر اس طرح کا بنایا گیا ہے۔ انہوں نے اس کو شروع کیا تھا ،لیکن اب یہ گاڑیان ایک بہت بڑی آٹو کمپنی ہونڈائی کی ملکیت ہیں۔
جیونگ سیونگ گیون نے اے ایف پی کو بتایا،کہ اب یہی مستقبل کی گاڑیاں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بس کو ایک نئی قسم کے ڈیزائن، کی ضرورت ہے جو سہولت بھی فراہم کرے اور دیکھنے میں قابل قبول بھی ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ بس کسی حد تک لیگو سے بنے ہوئے کھلونے کی طرح نظر آتی ہے۔ اسے چھوٹے ٹکڑوں سے جوڑ کر اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ لاگت کم آئے اور اس طرح کی دوسری گاڑیاں بنانا آسان ہو۔
سیونگ گیون نے مزید کہا کہ گاڑی کےخوکار نظام کی راستہ کی رہنمائی کے لیے مہنگے سینسرز کی بجائے کیمرے اور لیزر استعمال کیے گئے ہیں ۔
کمپنی کا ہدف یہ تھا کہ خوکار گاڑیوں کی ٹیکنالوجی کم لاگت، محفوظ اور مستقبل کے لیے موزوں ہو تاکہ اسے ٹرانسپورٹ کے مختلف شعبوں میں آسانی سے استعمال کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر ڈلیوری ٹرک وغیرہ۔
انہوں نے موجودہ تجر بے کے متعلق بتایا کہ فی الوقت بس میں ایک ڈرائیور موجود ہو گا، مگر وہ گاڑی نہیں چلائے گا بلکہ اس کی نگرانی کرے گا اور جہاں کوئی غلطی ہوئی وہ کنٹرول سنبھال کر سفر کو محفوظ بنائے گا۔
موجودہ تجربے میں خودکار بس کا روٹ سیول کے مرکزی حصے میں تقریباً ساڑھے تین کلومیٹر کا ہے جس میں تقریباً 20 منٹ لگتے ہیں۔
عوام ایک ایپ کے ذریعے مفت سیٹ بک کروانے کے بعد دو اسٹاپس پر بس میں سوار ہو سکتے ہیں۔
جمعے کے روز بس کے آغاز کے دوران اپنی 20 منٹ کی سواری کے بعد ایک 68 سالہ مسافر کم یی ہی رن نے بتایا کہ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں نے مستقبل میں جانے کے لیے ٹائم مشین میں قدم رکھا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بس میں سوار ہوتے وقت میں فکرمند تھا کہ کہیں مجھے چکر نہ آ جائیں۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
انہوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بس کی سواری بہت ہی ہموار اور محفوظ لگی اور مجھے جنوبی کوریا کی کمپنی کی اس تکنیکی ترقی پر بہت فخر ہے
(اس رپورٹ کے لیے مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔)