چین کی کمیونسٹ حکومت ملک کو خود انحصاری پر مبنی ٹیکنالوجی سپر پاور بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور وہ اپنی ٹیک کمپنیوں پر زور دے رہی ہے کہ وہ اپنے پراسیسر چیس کے ڈیزائن کو جدید تر بنانے کی جانب پیش رفت کریں، جن میں ای کامرس کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی علی بابا بھی شامل ہے۔
علی بابا گروپ کے چپ بنانے کے یونٹ ٹی-ہیڈ نے 2021 اکتوبر میں اپنے تیسرے پراسیسر 'یی ٹین -710' کی نقاب کشائی کی تھی، جس کا تعلق کلاؤڈ کمپیوٹنگ سے ہے۔ تاہم، علی بابا نے کہا ہے کہ وہ یہ چپ پراسیسر بیرونی ملکوں کو فراہم نہیں کرے گا۔
علی بابا کے ساتھ ساتھ چپ بنانے والی دیگر کمپنیوں مثلاً ' ٹین سینٹ' اور 'ژیاؤمی' نے بھی کہا ہے کہ وہ چپ پراسیسر کے اپنے یونٹوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی کی دنیا میں چپ پراسیسر ایک اہم ترین پرزہ ہے جو اسمارٹ فونز سے لے کر موٹر گاڑیوں، طبی آلات اور گھریلو مصنوعات تک میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث عالمی سطح پر اس کی فراہمی میں خلل پڑا ہے جس سے اسمارٹ ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی مصنوعات کی سپلائی لائن سست پڑ گئی ہے۔
چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی اپنی نئی اور ایک بڑی مہم کے تحت چپ پراسیسر کی تیاری کو اولین ترجیح دے رہی ہے تاکہ اس کے حصول کے لیے امریکہ اور جاپان پر انحصار ختم کیا جا سکے۔
بیجنگ کی یہ مہم واشنگٹن اور یورپ کے ساتھ تناؤ میں اضافہ کر رہی ہے، جو چین کو ایک اسٹریٹجک حریف کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور انہیں یہ شکایت بھی ہے کہ وہ ٹیکنالوجی چوری کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہ ان آلات تک چین کی رسائی کو محدود کر رہے ہیں جن کی مدد سے وہ اپنی صنعتوں کو بہتر بنا سکتا ہے۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس تناؤ کے باعث اگر دنیا متضاد معیارات اور مصنوعات کی منڈیوں میں تقسیم ہو گئی تو ممکن ہے کہ چین کے تیار کردہ پرزے مغرب اور امریکہ کے آلات اور مصنوعات میں، اور مغربی دنیا میں بنائے جانے والے پرزے چین کی مصنوعات میں کام نہیں کر سکیں گے۔ اس طرح دو نظام قائم ہونے سے مارکیٹ محدود اور ترقی کی رفتار سست پڑ جائے گی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے ستمبر میں ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن اور بیجنگ کو "دنیا کے الگ ہونے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔"
چین کی فیکٹریاں دنیا بھر کے اسمارٹ فونز اور ٹیبلیٹ کمپیوٹرز اسمبل کرتی ہیں، لیکن انہیں اس کے لیے امریکہ، یورپ، جاپان، تائیوان اور جنوبی کوریا میں بنائے جانے والے پرزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چین سب سے زیادہ چپ پراسیسر درآمد کرتا ہے۔ پچھلے سال اس نے 300 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے پراسیسر منگوائے تھے۔
چین کو امریکی پراسیسر کی فراہمی میں اس وقت رکاوٹ پیدا ہونا شروع ہوئی جب 2018 میں وائٹ ہاؤس نے اسمارٹ ٹیکنالوجی کی کمپنی ہواوے پر جاسوسی کا الزام لگاتے ہوئے اس کی چپ پراسیسر اور دیگر ٹیکنالوجی تک رسائی روک دی۔ ہواوے اس الزام سے انکار کرتی ہے۔
اس اقدام سے ہواوے کی تیزی سے آگے بڑھنے کی کوششوں کو دھچکا لگا اور اس نے متبادل ڈھونڈنے شروع کیے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہواوے اور کچھ دوسری چینی کمپنیاں اسمارٹ فونز کے لیے انٹیل کارپوریشن اور سام سنگ الیکٹرانکس جیسے چپ پراسیسر بنانے کے قریب پہنچ چکی ہیں۔
اس وقت تک چین پراسیسر کی تیاری میں مغربی دنیا سے کافی پیچھے ہے۔ چین پراسیسر کی عالمی پیداوار کا 23 فی صد حصہ تیار کرتا ہے، لیکن اس کی عالمی فروخت صرف ساڑھے سات فی صد کے لگ بھگ ہے۔
انتہائی چھوٹے سائز کے انتہائی طاقت ور چپ پراسیسر بنانے کی ٹیکنالوجی اس وقت صرف امریکہ، جاپان اور چند دوسرے ملکوں کے پاس ہے۔ چین کو اس معیار تک پہنچنے کے لیے ابھی طویل سفر طے کرنا ہے۔
بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی چپ پراسیسر کی صنعت کو ترقی دینے کے لیے 2030 تک 150 ارب ڈالر خرچ کرے گا۔ اس کے علاوہ بیجنگ اسمارٹ فون اور دیگر مینوفیکچررز کو چین کے اندر سے سپلائرز استعمال کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔
مغربی دنیا اور چین کے درمیان تازہ ترین تنازع فوٹو لیتھو گرافی پر ہوا ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو الٹرا وائلٹ روشنی کے استعمال سے چپ پراسیسر کے سرکٹ کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سرکٹ کے نینو میٹر حصے کی پیمائش کی جاتی ہے۔ نینو میٹر مختصر ترین پیمائش ہے جو ایک میٹر کے ایک اربویں حصے کے مساوی ہے۔
اس ٹیکنالوجی میں نیدرلینڈ سب سے آگے ہے۔ وہ ایسے آلات بناتا ہے جو سرکٹ میں صرف 5 نینو میٹر تک میں درستگی سے کام کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں می وہ ایک سینٹی میٹرجگہ میں 20 لاکھ ٹرانسسٹرز کو اکھٹا کر سکتی ہے۔
ٹرانسسٹر، چپ پراسیسر کی بنیادی اکائی ہے۔ زیادہ ترپراسیسر کے سرکٹ میں ہزاروں ٹرانسسٹر کے سرکٹ ہوتے ہیں۔ اعلیٰ میعار کے پراسیسر کے اندر ٹراسسٹر سرکٹس کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔
چین کے پاس اس وقت موجود ٹیکنالوجی 14 نینو میٹر پر کام کرتی ہے۔ اسے اپنا معیار بڑھانے کے لیے ابھی بہت آگے جانے کی ضرورت ہے، جس کے لیے وہ ڈچ حکومت سے جدید ترین مشینیں خریدنا چاہتا ہے، لیکن ڈچ حکومت ابھی اس پر فیصلہ نہیں کر پا رہی۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ ڈچ فیصلے کا انتظار کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انکار کی صورت میں چین اپنے کس متبادل پر کام کرے گا۔
(اس مضمون کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے حاصل کیا گیا ہے)