ادھر، وائٹ ہاؤس نے اِس سمجھوتے کو سراہا ہے۔ ترجمان، جے کارنی کے بقول، ’تشدد کے خاتمے کے ضمن میں، یہ ایک اہم ابتدائی قدم ہے‘
واشنگٹن —
جنوبی سوڈان کے تمام متحارب دھڑوں نے جنگ بندی کے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں، جس اقدام کی مدد سے یہ توقعات جنم لینے لگی ہیں کہ حکومت اور باغی فریقین کے درمیان ہفتوں سے جاری مہلک لڑائی کا خاتمہ ممکن ہوگا۔
صدر سالوا کیر اور اُن کے مخالفین سے تعلق رکھنے والے نمائندوں نے جمعرات کے دِن ایتھیوپیا کے دارالحکومت میں ایک سمجھوتے پر دستخط کیے، جہاں مصالحت کار مشرقی افریقہ کے علاقائی بلاک، جسے ’انٹر گورنمینٹل اتھارٹی آن ڈولپمنٹ (آئی جی اے ڈی)‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔
بات چیت میں شامل نمائندوں نے دو عدد سمجھوتوں پر دستخط کیے۔
ایک سمجھوتے میں، دونوں فریق سے مطالبہ کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر تمام فوجی کارروائیاں بند کریں، اور ایسی کسی کارروائی سے احتراز کریں، جس کے باعث محاذ آرائی کا ماحول پیدا ہو۔
سمجھوتے میں، ’تصدیق اور مشاہدے‘ کے ایک دستے کے قیام کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
دوسرے سمجھوتے کا تعلق زیرِ حراست افراد کے معاملات کو طے کرنے سے ہے۔
اِس سے قبل، حکومت کی طرف سے حزب مخالف کے 11 سیاسی حامیوں کی رہائی پر ہونے والی بات چیت تعطل کا شکار ہوگئی تھی، جنھیں دسمبر کے وسط میں اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا، جب اِس بحران نے سر اٹھایا تھا۔
سمجھوتے میں، ایک قومی مفاہمتی عمل کو تشکیل دینے کے لیے کہا گیا ہے، جس میں ’زیر حراست افراد اور سیاسی عناصر‘ شامل ہوں گے۔
تاہم، بات چیت میں شامل حکومتی نمائندے نے ’وائس آف امریکہ‘ کے ایک نامہ نگار کو بتایا کہ اب بھی حراست میں لیے گئے افراد کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا ہوگا۔
ایک بیان میں،’ آئی جی اینڈ ڈی‘ نے اِس معاہدے کو سراہا ہے۔
سفیر سیوم مِسفین نے، جو چیرمین کے خصوصی ایلچی ہیں، سمجھوتے پر دستخط کو ایک ’اہم تاریخی‘ پیش رفت قرار دیا، جس عمل کے ذریعے، جنوبی سوڈان کے بحران کا ایک پُرامن سیاسی حل نکلنے میں مدد ملے گی۔
ادھر، واشنگٹن میں، وائٹ ہاؤس نے اس سمجھوتے کو سراہا ہے۔ ترجمان جے کارنی کے بقول، ’تشدد کے خاتمے کے ضمن میں، یہ ایک اہم ابتدائی قدم ہے‘۔
اُن کے الفاظ میں، ’امریکہ دونوں فریق پر زور دیتا ہے کہ جاری تنازع کے اصل اسباب کے حل کے لیے، سب کی شراکت پر منبی مکالمے کے عمل کی طرف، پیش رفت کی ایک فوری صورت پیدا ہوگئی ہے۔ امریکہ ایک مستحکم ساجھے دار کے طور پر ایسے لوگوں کی مدد کے لیے موجود ہوگا جو امن کی راہ اپناتے ہیں اور ایک زیادہ پُرامن، جمہوری اور متحدہ جنوبی سوڈان کےحصول کے لیے کام جاری رکھتے ہیں‘۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون نے اپنے ردِ عمل میں اِس امید کا اظہار کیا کہ یہ سمجھوتا مصیبت میں پھنسے لوگوں کو ’اچھے مواقع‘ فراہم کرنے کا سبب بنے گا۔
صدر سالوا کیر اور اُن کے مخالفین سے تعلق رکھنے والے نمائندوں نے جمعرات کے دِن ایتھیوپیا کے دارالحکومت میں ایک سمجھوتے پر دستخط کیے، جہاں مصالحت کار مشرقی افریقہ کے علاقائی بلاک، جسے ’انٹر گورنمینٹل اتھارٹی آن ڈولپمنٹ (آئی جی اے ڈی)‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔
بات چیت میں شامل نمائندوں نے دو عدد سمجھوتوں پر دستخط کیے۔
ایک سمجھوتے میں، دونوں فریق سے مطالبہ کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر تمام فوجی کارروائیاں بند کریں، اور ایسی کسی کارروائی سے احتراز کریں، جس کے باعث محاذ آرائی کا ماحول پیدا ہو۔
سمجھوتے میں، ’تصدیق اور مشاہدے‘ کے ایک دستے کے قیام کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
دوسرے سمجھوتے کا تعلق زیرِ حراست افراد کے معاملات کو طے کرنے سے ہے۔
اِس سے قبل، حکومت کی طرف سے حزب مخالف کے 11 سیاسی حامیوں کی رہائی پر ہونے والی بات چیت تعطل کا شکار ہوگئی تھی، جنھیں دسمبر کے وسط میں اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا، جب اِس بحران نے سر اٹھایا تھا۔
سمجھوتے میں، ایک قومی مفاہمتی عمل کو تشکیل دینے کے لیے کہا گیا ہے، جس میں ’زیر حراست افراد اور سیاسی عناصر‘ شامل ہوں گے۔
تاہم، بات چیت میں شامل حکومتی نمائندے نے ’وائس آف امریکہ‘ کے ایک نامہ نگار کو بتایا کہ اب بھی حراست میں لیے گئے افراد کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا ہوگا۔
ایک بیان میں،’ آئی جی اینڈ ڈی‘ نے اِس معاہدے کو سراہا ہے۔
سفیر سیوم مِسفین نے، جو چیرمین کے خصوصی ایلچی ہیں، سمجھوتے پر دستخط کو ایک ’اہم تاریخی‘ پیش رفت قرار دیا، جس عمل کے ذریعے، جنوبی سوڈان کے بحران کا ایک پُرامن سیاسی حل نکلنے میں مدد ملے گی۔
ادھر، واشنگٹن میں، وائٹ ہاؤس نے اس سمجھوتے کو سراہا ہے۔ ترجمان جے کارنی کے بقول، ’تشدد کے خاتمے کے ضمن میں، یہ ایک اہم ابتدائی قدم ہے‘۔
اُن کے الفاظ میں، ’امریکہ دونوں فریق پر زور دیتا ہے کہ جاری تنازع کے اصل اسباب کے حل کے لیے، سب کی شراکت پر منبی مکالمے کے عمل کی طرف، پیش رفت کی ایک فوری صورت پیدا ہوگئی ہے۔ امریکہ ایک مستحکم ساجھے دار کے طور پر ایسے لوگوں کی مدد کے لیے موجود ہوگا جو امن کی راہ اپناتے ہیں اور ایک زیادہ پُرامن، جمہوری اور متحدہ جنوبی سوڈان کےحصول کے لیے کام جاری رکھتے ہیں‘۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون نے اپنے ردِ عمل میں اِس امید کا اظہار کیا کہ یہ سمجھوتا مصیبت میں پھنسے لوگوں کو ’اچھے مواقع‘ فراہم کرنے کا سبب بنے گا۔