اسپین میں کرپشن روکنے کے لیے نیا طریقہ ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ کرپٹ سرکاری افسران کو ’ری ہیب‘ یعنی اصلاحی سینٹرز بھیجا جائے لگا ہے۔
امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' کی رپورٹ کے مطابق اسپین میں ایسے کرپٹ افراد جو ’وائٹ کالر‘ جرم کی سزا میں قید کاٹ رہے ہیں، انہیں پھر سے معاشرے کا حصہ بنانے کے لیے ایک اصلاحی پروگرام متعارف کروایا گیا ہے۔
یہ اصلاحی پروگرام 11 مہینے پر محیط 32 سیشنز پر مبنی ہو گا، جس کے دوران نفسیاتی ماہرین کی ایک ٹیم ایسے قیدیوں کی نگرانی کرے گی۔
اخبار کے مطابق، اسپین میں اس پروگرام کو متعارف کرانے سے اس سوچ کو تقویت دینا مقصود ہے کہ لوگوں کو دوسرا موقع ملنا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اخبار کے مطابق، اسپین میں کرپشن کا مسئلہ عام ہے اور ملک میں 2009 میں منظر عام پر آنے والے ایک بڑے کرپشن کیس کی وجہ سے متعدد افسران کو سرکاری ٹھیکوں میں رشوت ستانی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اخبار کے مطابق اس سکینڈل کی وجہ سے اُس وقت کی برسراقتدار پارٹی (اسپین کی) پیپلز پارٹی کی حکومت 2018 میں ختم ہوئی تھی۔
اخبار نے بتایا کہ 75 برس کے کارلوس البرکرکیو (Carlos Alburquerque)ہسپانوی شہر قرطبہ میں رشوت ستانی کے الزام میں 4 برس کی قید کاٹ رہے ہیں۔ البرکرکیو اپنے شہر میں نوٹری کا کام کرتے تھے۔ ان پر سرکاری ٹھیکوں میں 4 لاکھ یورو کے قریب خرد برد کرنے کا الزام تھا۔
اخبار کے مطابق،البرکرکیو دوسرے ’وائٹ کالر‘ کرائم میں قید مجرمان کے ساتھ ایک اصلاحی پروگرام کا حصہ ہیں۔ اس تجرباتی پروگرام کا مقصد ، اخبار کے مطابق، یہ جاننا ہے کہ ان کرپٹ افسران کے اندر کیا ایک دیانتدار انسان موجود ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اخبار کی رپورٹ کے مطابق، جہاں ٹی وی اور میڈیا میں ہر جانب ’وائٹ کالر‘ جرائم سے متعلق ٹی وی شو اور فلمیں دکھائی جاتی ہیں، وہیں اسپین میں کرپشن کی شرح باقی یورپی ممالک سے کم ہے۔ ٹرانسپرسی انٹرنیشنل نے اسپین کو کرپشن میں ہمسایہ ممالک فرانس سے نیچے رکھا ہے اور اٹلی سے کچھ اوپر۔
رپورٹ کے مطابق، رواں برس مارچ میں اسپین کے 9 جیلوں میں یہ پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ ان قیدیوں کو اس اصلاحی پروگرام میں شمولیت پر سزا میں کمی تو نہیں ملتی، البتہ اس پروگرام میں شرکت کرنے والوں کے لیے پیرول میں نرمی برتی جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اخبار نے لکھا ہے کہ اسپین میں جیلوں کو چلانے والے سابقہ جج اینجل لوئیس آرٹیس کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کا سب سے بڑا چیلنج کرپشن کے الزامات میں سزا کاٹنے والے افسران کو یہ سمجھانا ہے کہ کچھ نہ کچھ خرابی ان ہی میں ہے، جس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
سابق جج آرٹیس کے بقول ’’چونکہ یہ لوگ پیسے اور طاقت والے ہیں، ہم اس مشکل سوال سے الجھ رہے ہیں کہ یہ لوگ جرم کر کے سزا سے بچ سکتے ہیں اور انہیں ہماری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق، اس مقصد کے لیے جیل میں قیدیوں کے ساتھ کام کا تجربہ رکھنے والے نفسیات دان سرجیو روئیز سے رابطہ کیا گیا۔ جن کا کہنا تھا کہ جہاں ہم اس تھراپی کے ذریعے ان شرکا کا یہ احساس دلائیں گے کہ انہوں نے غلطی کی ہے، وہیں ہم ان مجرمان کو ان سیشنز میں براہ راست متاثرہ افراد سے بھی ملوائیں گے، تاکہ وہ ان سے معافی مانگیں۔