کراچی کے ضلع ملیر میں قائم پوش آبادی بحریہ ٹاؤن سے متصل دیہات کے رہائشیوں نے الزام لگایا ہے کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی زبردستی اُن کی زمینیں ہتھیانا چاہتی ہے، جہاں وہ کئی برسوں سے آباد ہیں۔
اس حوالے سے پیر کو ان دیہات کے رہائشیوں نے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اُن کے خلاف اس کارروائی کو روکا جائے۔
یہ احتجاج گزشتہ پانچ سال سے وقتاً فوقتاً جاری رہتا ہے اور عدالتی فیصلہ آنے کے بعد بھی یہاں کی مقامی دیہی آبادی کے مطابق ان کی زمینوں پر 'قبضے' کا سلسلہ جاری ہے.
مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ پانچ برسوں سے ان کارروائیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
مقامی افراد کے احتجاج میں گزشتہ ہفتے اس وقت شدت آ گئی تھی جب نجی ہاؤسنگ اسکیم نے مبینہ طور پر اپنی ملکیت کے دعوے کے تحت دیہات کی زمینوں پر تعمیرات کی کوشش کی۔
ان دیہات میں مقیم رہائشیوں کا کہنا ہے کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ان کے راستے بند کر رہی ہے جب کہ کئی دیہات پہلے ہی بحریہ ٹاؤن کی حدود کے اندر آ چکے ہیں۔
احتجاج کے دوران بنائی گئی کئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دیہات کے رہائشیوں کی جانب سے مزاحمت کی جا رہی ہے اور بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو رکاوٹیں کھڑی کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
متاثرین کا الزام ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے اہل کار بھاری مشینری اور گاڑیوں کے ہمراہ ان کے علاقے میں پہنچے تھے اور زبردستی رکاوٹیں تعمیر کرنے کی کوشش کی اور مزاحمت کرنے پر بعض متاثرین کو تشدد کا بھی نشانہ بنایا۔
متاثرین نے یہ الزام بھی لگایا کہ سندھ پولیس بھی اس کارروائی میں شامل تھی اور اس نے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کا بھرپور ساتھ دیا اور متاثرین پر لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔
آخر مظاہرین کیا چاہتے ہیں؟
پانچ سال قبل بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ان مبینہ قبضوں کے خلاف مقامی لوگوں نے ایک تنظیم قائم کی جس کا نام "انڈیجینس رائٹس الائنس" رکھا گیا۔
اس تنظیم کا مقصد ان علاقوں کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا بتایا جاتا ہے۔ اس تنظیم نے اس مقصد کے لیے عدالت سے بھی رُجوع کیا۔
لیکن تنظیم کے فعال رکن حفیظ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی اور نور محمد گبول گوٹھ، عبداللہ گبول گوٹھ، ہادی بخش گبول گوٹھ اور کمال خان جوکھیا اور داد کریم بلوچ کی زمینوں پر بحریہ ٹاؤن اُن کے بقول مسلسل 'قبضہ' کر رہا ہے۔
حفیظ بلوچ نے کہا کہ ان زمینوں پر یہ لوگ عرصے سے رہائش پذیر ہیں یا کاشت کاری کرتے ہیں۔ اُن کے بقول اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں کئی ایسے قبرستان ہیں جو بےحد پرانے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا ان کے پاس زمین کی ملکیت کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں، حفیظ بلوچ کا کہنا تھا کہ یہاں رہنے والے کئی لوگوں کے پاس 1960 کی بعض دستاویز موجود ہیں جب کہ کچھ کے پاس پاکستان بننے سے قبل کی دستاویزات بھی ہیں۔
اُن کے بقول علاقے میں رہنے والے زیادہ تر افراد ناخواندہ ہیں اور انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس طرح ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا جائے گا۔ اس لیے شاید سب ہی کے پاس ایسی دستاویزات نہ ہوں لیکن یہ دیہات گوٹھ آباد اسکیمز کے تحت باقاعدہ رجسٹرڈ بھی ہیں۔
حفیظ بلوچ نے الزام عائد کیا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کا کل رقبہ 16 ہزار 800 ایکڑ تھا جو اب قبضہ ہوتے ہوتے 40 ہزار ایکڑ سے زیادہ ہو گیا ہے اور اس میں کئی دیہات کو اپنی حدود میں شامل کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے اب تک مسئلے کے حل کے لیے بحریہ کی زمین کی حد بندی کا عمل مکمل ہی نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ گمبھیر ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ متاثرین ’’نہ تو زمین کا معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی بحریہ میں پلاٹ بلکہ وہ تو اپنی ہی زمین پر اپنا پورا حق چاہتے ہیں اور بس۔‘‘
حال ہی میں علاقے کے ایک مکین مراد بخش گبول کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے خلاف ان کی زرعی زمین سے سیوریج لائن گزارنے اور پھر زمین پر قبضہ کرنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ میں دائر آئینی درخواست میں عدالت نے حکمِ امتناع بھی جاری کیا ہے۔
عدالت نے ہاؤسنگ سوسائٹی کو مزید کام سے بھی روک دیا ہے۔ مراد بخش گبول کے وکیل کاظم حسین مہیسر ایڈوکیٹ نے بتایا کہ پٹیشن میں سروے نمبرز، گوٹھ آباد ایکٹ کی سندیں بھی منسلک کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ہی کے قوانین کے تحت گوٹھ آباد اسکیم کے تحت موجود دیہات سے لوگوں کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ ان کی زمین پر ان کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اکثر ایسی درخواستیں عدالتوں میں بہت کم ہی توجہ حاصل کر پاتی ہیں۔ لیکن اس بار ان کی بات سنی گئی اور معزز عدالت نے یہاں تعمیرات سے روک دیا ہے۔
صوبائی حکومت کا کیا مؤقف ہے؟
اس مسئلے پر بحریہ ٹاؤن کراچی کی کمیونی کیشن ٹیم سے رابطے کی کئی بار کوشش کی گئی۔ رابطہ کرنے پر کمیونی کیشن ٹیم کی انچارج منیبہ شیخ نے اس بارے میں کوئی بھی موقف دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ بحریہ ٹاؤن اس بارے میں کوئی موقف نہیں دینا چاہتا۔
اسی طرح صوبائی وزیرِ اطلاعات ناصر شاہ سے سندھ حکومت کا موّقف حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہیں پیغامات بھی بھیجے گئے، لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاہم یہی سوال جب صوبے میں برسرِ اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے بلاول ہاؤس کراچی میں گزشتہ جمعے کو پریس کانفرنس میں کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس بارے میں ناانصافی کی کافی شکایات موصول ہوئی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس بارے میں انہیں وزیرِ اعلیٰ سندھ کی جانب سے رپورٹ کا انتظار ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم کے تحت باؤنڈری وال بنائی جارہی ہے تو اسی فیصلے کے مطابق جرمانے کی ادا شدہ رقم کا ایک پیسہ بھی اب تک سندھ حکومت کو نہیں ملا جس سے وہاں کے لوگوں کو معاوضہ دیا جائے جو ان کا حق بنتا ہے۔
پیر کو دوبارہ بلاؤل ہاوس کراچی میں بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس میں یہ سوال کیا گیا کہ کیا انہیں وزیرِ اعلیٰ سندھ کی جانب سے رپورٹ موصول ہوئی ہے تو انہوں نے بتایا کہ ابھی بحریہ ٹاؤن کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی رپورٹ انہیں موصول نہیں ہوئی ہے اور اس کا انہیں انتظار ہی ہے۔
جب یہی سوال ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب سے منگل کو سندھ اسمبلی میں پریس کانفرنس کے دوران پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس بارے میں چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی جواب دے چکے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملیر سے تمام صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستیں پیپلز پارٹی نے ہی جیتی ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ہم ان کے مفادات کا تحفظ نہ کریں۔ اور ہمیں ابھی پولیس کی جانب سے تفصیلی رپورٹ آنے کا انتظار ہے۔ جب یہ رپورٹ آئے گی تو اسے عوام کے ساتھ شئیر کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ بحریہ ٹاؤن کیس میں سپریم کورٹ نے زمینوں کی خریداری میں بدعنوانی سامنے آنے کے بعد 460 ارب روپے کا بھاری جرمانہ عائد کیا تھا جو کہ نجی ہاوسنگ اسکیم کو قسط وار جمع کرانا ہے۔
یہ رقم بحریہ ٹاؤن کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرانی تھی جس کے بعد اس رقم کو خرچ کرنے کے لیے 11 رکنی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم سندھ حکومت نے اس رقم کے خرچ کے لیے کمیشن بنانے کی مخالفت کی تھی اور مؤقف اپنایا تھا کہ یہ رقم صوبہ سندھ کی ہے اس لیے صوبائی انتظامیہ ہی کو اس کے خرچ کا مکمل اختیار ہونا چاہیے۔
'معاملہ سیاسی مصلحت اور بدعنوانی کا ہے'
دوسری جانب شہری امور کے ماہر اور اربن ریسورس سینٹر میں ڈائریکٹر محمد یونس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں سیاسی مصلحتیں اور زمینوں کے کاروبار میں موجود کرپشن نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔
اُن کے بقول بحریہ ٹاؤن جس وسیع پیمانے پر بنا ہوا ہے اب ظاہر ہے اسے آبادی کی سہولت کے لیے راستے بنانے، پانی اور سیوریج کی لائنز بچھانے کے لیے مزید زمینیں درکار ہیں جس کے لیے بقول ان کے بحریہ ٹاؤن اب غیر قانونی طور پر اپنی حدود سے باہر نکل کر زمین ہتھیا رہا ہے۔
محمد یونس کے بقول علاقے کی دیہی آبادی کو زبردستی بے دخل کرنے کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس مقصد کے لیے بحریہ ٹاؤن کو پولیس کی بھی سرپرستی حاصل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انگریز دور سے یہ قانون موجود ہے کہ لوگوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بغیر کسی ٹھوس وجہ کے اور قابلِ قبول معاوضے کی ادائیگی کے بنا بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون کا اطلاق بحریہ ٹاؤن پر ہونا چاہیے کہ وہ اپنی حدود سے باہر کیسے فینسنگ کر رہا ہے۔
اُن کے بقول کوئی ادارہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ سے باز پرس کرنے والا نہیں۔ اسی طرح سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا کوئی قانون بحریہ ٹاؤن پر نہیں چلتا کیوں کہ یہ ادارے اس قدر کمزور ہیں کہ وہ اپنا کوئی بھی قانون یہاں نافذ نہیں کروا سکتے۔
محمد یونس کے خیال میں اس صورتِ حال کی کئی وجوہات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زمین کرپشن کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس سے بہت زیادہ پیسے کمائے جا سکتے ہیں اور پھر وہ پیسہ بانٹا جاتا ہے اور بقول ان کے انتظامیہ میں بیٹھے بعض افراد کو جب یہ پیسے ملتے ہیں تو سب خاموش ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ قانون پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے جس سے طاقت ور افراد کو مزید شہہ ملتی ہے جب کہ غریب اور پسے ہوئے طبقات مزید دبائے جاتے ہیں۔
ادھر سندھ میں اپوزیشن جماعتوں نے بحریہ ٹاؤن اور سندھ حکومت کے خلاف قرارداد سندھ اسمبلی میں جمع کرائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملیر میں قدیم گوٹھوں کو بحریہ ٹاؤن کے ذریعے مسمار کرنے کی سازش بند کی جائے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ احتجاجی مظاہرین پر تشدد میں ملوث پولیس اہل کاروں اور افسران کے خلاف کارروائی کی جائے۔
بحریہ ٹاؤن کراچی ہے کہاں؟
بحریہ ٹاؤن کراچی کو حیدرآباد سے ملانے والی ایم نائن موٹر وے پر 16 ہزار 896 ایکڑ زمین پر محیط ہاؤسنگ سوسائٹی ہے۔ جس کی تعمیر 2010 میں شروع ہوئی اور چند برسوں ہی میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام مکمل کر لیے گئے۔
سال 2019 تک فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق 14 ہزار الاٹیز کو چھوٹے بڑے پلاٹس الاٹ کیے جا چکے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن ملیر کے پانچ دیہات پر مشتمل ہے جن میں دیہہ بھولاری، دیہہ لنگ حاجی، دیہہ کونکر، دیہہ کھرکھرو اور کاٹھور شامل ہیں۔ لیکن شروع ہی سے بحریہ ٹاؤن سے کئی تنازعات وابستہ رہے ہیں اور انتطامیہ پر غیر قانونی طور پر زمین کے حصول پر ہاوسنگ اسکیم بنانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے 21 مارچ 2019 کے ایک فیصلے کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے وکلا نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اس 16 ہزار 896 ایکڑ زمین کے علاوہ بحریہ ٹاؤن کراچی کا کسی اور زمین پر کوئی حق نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے یہ بھی قبول کیا تھا کہ اس زمین کی خریداری کی کم قیمت سامنے آنے پر اب وہ سات سال میں مجموعی طور پر 460 ارب روپے قومی خزانے کو زمین کی قیمت کے طور پر جمع کرائے گا جو فی ایکڑ دو کروڑ 72 لاکھ 20 ہزار روپے بنتے ہیں۔
اس حوالے سے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کو 25 ارب روپے ڈاؤن پیمنٹ اور بقایا اقساط میں اگست 2026 تک جمع کرانا ہوں گے۔ عدالتی حکم کے مطابق یہ رقم ادا کرنے کے بعد بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ کو زمین کی 99 سالہ لیز جاری کی جائے گی۔ ان شرائط پر عمل کرنے کی صورت میں سپریم کورٹ نے نیب کو بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف ریفرنس نہ دائر کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
اسی حکم کے تحت سندھ حکومت کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ ان 16 ہزار 896 ایکڑ زمین کے علاوہ سندھ حکومت اور اس کا ادارہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی یقینی بنائے گا کہ بحریہ ٹاؤن مزید زمین زبردستی حاصل نہیں کرے گا۔ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں حکومتی اہلکاروں، مشینری اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف فوج داری مقدمات قائم کرنے کا بھی انتباہ کیا گیا تھا۔