|
اسپین کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اگلے تین سالوں میں تقریباً 300,000 غیر دستاویزی تارکین وطن کو قانونی حیثیت دی جائے گی جس سے متوقع طور پر ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بھی مستفید ہوں گے۔
حالیہ دہائیوں میں اسپین دنیا کے کئی ملکوں سے مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد ریکارڈ کی گئی ہے۔
اسپین میں پاکستانی تارکین وطن کی برادری میں اس صدی سے کے شروع سے بڑا اضافہ ہونا شروع ہوا۔ بارسیلونا میں پاکستانی کمیونیٹی رہنما ڈاکٹر ہما جمشید کہتی ہیں کہ اس وقت اسپین میں اندازاً ڈیڑھ لاکھ کے قریب پاکستانی نژاد شہری آباد ہیں۔
ڈاکٹر ہما جمشید، جو ایس ساپ (اے سی ای ایس او پی) کے نام کی بہبود اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرنے والے تنظیم کی رہنما ہیں کہتی ہزاروں پاکستانی، خاص طور پر وہ جو مقامی سٹی کونسل میں دو سال سے رجسٹرڈ ہیں، اس نئے پروگرام سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
اس کے علاوہ ان کے مطابق قانونی حیثیت دینے کے عمل میں لوگوں کے کنڈکٹ کے حوالے سے ریکارڈ کو بھی دیکھا جائے گا۔
SEE ALSO: اسپین کے کوسٹ گارڈ نے کینری جزائر کے قریب 86 تارکینِ وطن کو بچالیااسپین میں بسنے والے پاکستانیوں میں ہنر مند لوگ اور پیشہ وارانہ ماہرین دونوں شامل ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسپین کے تعمیرات اور سروسز کے شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ویزوں پر آ کر یہاں آباد ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر ہما جمشید کے مطابق تقریباً بیس ہزار پاکستانی قانونی دستاویز کے بغیر یہاں رہ رہے ہیں۔
یوں کمیونیٹی رہنماوں کے مطابق پاکستانی اسپین میں بہتر مستقبل کے لیے زیادہ بہتر مواقع حاصل کر سکیں گے۔
ہسپانوی وزیر برائے مائیگریشن کے مطابق اسپین یہ پروگرام اگلے سال مئی میں شروع کرے گا اور یہ 2027 تک جاری رہے گا۔
اس پالیسی کا مقصد ملک میں عمر رسیدہ افراد کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نطر ملک میں افرادی قوت کو بڑھانا ہے۔
نئے پروگرام کے تحت مناسب دستاویزات کے بغیر اسپین میں مقیم غیر ملکیوں کو ورک پرمٹ اور رہائش حاصل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
دیگر یورپی ملکوں کے مقابلے میں اسپین بڑی حد تک تارکین وطن کی آمد کے لیے کھلا رہا ہے۔
حالیہ سالوں میں کئی یورپی ملکوں نے غیر قانونی کراسنگز کو بند کر دیا اور آنے والے نئے پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدوں کی سخت نگرانی کی ہے۔
SEE ALSO: ’مغربی حکومتوں اور تنظیموں نےہمیں تنہا چھوڑ دیا‘واضح رہے کہ اسپین ایک فلاحی ریاست ہے جسے چلانے کے لیےملک کو سالانہ تقریباً 250,000 رجسٹرڈ غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت ہے۔
مائیگریشن کی وزیر ایلما سائز نے بدھ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ قانونی حیثیت دینے کی پالیسی کا مقصد صرف "ثقافتی دولت (کو بڑھانا) اور انسانی حقوق کا احترام نہیں ہے بلکہ (ملک کی) خوشحالی بھی ہے۔"
"آج، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسپین ایک بہتر ملک ہے،" سائز نے قومی نشریاتی ادارے ریڈیو ٹیلی ویژن ایسپانولا کو بتایا۔
ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے اپنی حکومت کی مائیگریشن پالیسیوں کو ملک کی کم شرح پیدائش سے نمٹنے کا ایک ذریعہ قرار دیا ہے۔
SEE ALSO: تارکینِ وطن کن خطرات سے کھیل کرشام سے لیبیا اور پھر یورپ پہنچتے ہیں؟نئی پالیسی کی منظوری اسپین کی بائیں بازو کی اقلیتی مخلوط حکومت نے منگل کے روز دی تھی۔ یہ پالیسی طویل مدتی ویزوں کے انتظامی طریقہ کار کو آسان بناتی ہے اور تارکین وطن کو اضافی لیبر تحفظات فراہم کرتی ہے۔
اس کے تحت ملازمت تلاش کرنے والے افراد کو دیے گئے ویزے کی مدت تین ماہ سے بڑھا کر ایک سال کی جائے گی۔
ملک کی وزارت داخلہ کے مطابق اس سال نومبر کے وسط تک تقریباً 54,000 غیر دستاویزی تارکین وطن اس سال سمندری یا خشکی کے راستے اسپین پہنچے تھے۔
تاہم، دستاویزات کے بغیر اسپین میں مقیم غیر ملکیوں کی صحیح تعداد واضح نہیں ہے۔
بہت سے تارکین وطن اسپین کی زیر زمین معیشت میں کام کرتے ہیں جن میں پھل چننے ، دیکھ بھال کرنے، ڈیلیوری ڈرائیورز اور دیگر کم اجرت والی لیکن اہم ملازمتیں کرتے ہیں۔ یہ وہ کام ہیں جو مقامی لوگ کرنا نہیں چاہتے۔
SEE ALSO: تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد کے پاکستان چھوڑنے سے معیشت پر کیا اثرات ہوں گے؟لیکن قانونی تحفظات کے بغیر تارکین وطن استحصال اور بدسلوکی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
مائیگریشن کی وزیر ایلما سائز نے کہا کہ نئی پالیسی اس طرح کی بدسلوکی کو روکنے میں مدد کرے گی۔
ان کے مطابق یہ پالیسی "مافیا، دھوکہ دہی اور حقوق کی خلاف ورزی" میں ملوث گروہوں سے نمٹنے میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔
اسپین کی معیشت اس سال یورپی یونین میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل ہے ۔
معیشت کی ترقی جزوی طور پر امیگریشن اور وبائی امراض کے بعد سیاحت کی واپسی سے ہے۔
ہسپانوی حکومت کے مطابق، 2023 میں اسپین نے غیر ملکیوں کو 13 لاکھ ویزے جاری کیے تھے۔
(اس خبر میں شامل بعض معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)