پاکستانی معاشرے میں تشدد کے رجحان کو کیسے روکا جائے؟

امریکی ماہر نفسیات لیزا فائر اسٹون اپنے ایک مضمون میں تشدد کو روکنے کے طریقے بتاتے ہوئے لکھتی ہیں کہ انسان کی باقی خصوصیات اور خامیوں کی طرح تشدد بھی کچھ اسے ورثے میں ملتا ہے اور کچھ وہ ماحول سے سیکھتا ہے

آج کل پاکستانی خبروں میں سانحہ، دھماکہ، فائرنگ، ٹارگٹ کلنگ، ہنگامہ، ہڑتال، آتش زدگی، آپریشن، گھریلو تشدد، جنسی زیادتی اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی دھمکیوں جیسے الفاظ پہلے کے مقابلے میں بڑھ گئے ہیں، اور اس کا ادراک کرنے کے لئے خبروں پر ایک نظر ڈالنا ہی کافی ہوگا۔


کیونکہ تشدد کی یہ خبریں پاکستانی معاشرے سے ہی جنم لیتی ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ معاشرے میں بھی تشدد پہلے کے مقابلے میں بڑھا ہے، یا پھر کچھ لوگوں کی رائے کے مطابق، شاید تشدد تو پہلے بھی تھا، لیکن اب چونکہ اخبارات اور نیوز چینلز بڑھ گئے ہیں، اس لئے یہ خبریں منظر عام پر زیادہ آتی ہیں۔


کراچی جیسے شہر میں راہگیروں، موٹر سائکل سواروں، گاڑی چلانے والوں، ویگن اور بس ڈرائیوروں کا آپس میں اور دوسروں سے لڑنا جھگڑنا عام سی بات ہے، یہاں تک کہ اس پر ہتھیار بھی نکل آتے ہیں، لوگ زخمی ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار تو مارے بھی جاتے ہیں۔


تدریس گاہوں میں طالب علموں کو تشدد کا نشانہ بنانا، گلی محلوں سے بچوں کا اغوا اور کئی کے ساتھ جنسی تشدد اور کچھ کو ہلاک کیا جانا سب کے سامنے ہے۔ خواتین پر غیرت کے نام پر کیا جانے والا تشدد کئی بار پاکستان کو ملکی اور عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنا چکا ہے۔


اسی طرح ملک کے مختلف حصوں میں گھروں میں کام کرنے والے کم سن بچوں پر ہونے والا تشدد اور کھیتوں اور کارخانوں میں محنت کشوں پر کی جانے والی زیادتی بھی عیاں ہیں۔


معاشرے میں پائے جانے ولے تشدد کی اقسام، وجوہات اور خاتمے کے لئے اگر ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں اجحان اس نوعیت کا سا ہے کہ جسے تشدد عام سی بات ہے۔


حکومت کینیڈا کی جانب سے تشدد کی روک تھام کے حوالے سے کئے جانے والے ایک اقدام کے مطابق یہ تشدد زبانی، جذباتی، نفسیاتی، مذہبی، مالی، ثقافتی، جسمانی اور جنسی نوعیت کا ہوسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی ذمیداریاں پوری نہ کرنا بھی دوسروں پر تشدد کے مترادف ہے اور ان تمام اقسام کے تشدد کی اصل جڑ معاشرے میں مختلف اقسام کی عدم مساوات اور دوسروں پر حاوی آنے کی چال ہے۔

تشدد کو روکنے کے طریقے بتاتے ہوئے، امریکی ماہر نفسیات لیزا فائر اسٹون اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ انسان کی باقی خصوصیات اور خامیوں کی طرح تشدد بھی کچھ اسے ورثے میں ملتا ہے اور کچھ وہ ماحول سے سیکھتا ہے، انسان کی جینیات تو نہیں بدلی جا سکتی، لیکن اس کا ماحول اور تربیت ضرور بدلی جا سکتی ہے۔


لیزا کے مطابق، معاشرے میں تشدد کے خاتمے کے لئے لوگوں کو تحفظ دینے، ان کا خیال رکھنے اور ان میں باہمی روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لئے بچوں کی پرورش محبت سے کی جائے، ان کو ضمیر اور اخلاقی اقدار کی اہمیت بتائی جائے، ان میں دوسروں کا درد سمجھنے کی صلاحیت پیدا کی جائے، انھیں نظرانداز نہ کیا جائے، بلکہ انھیں توجہ دی جائے۔ انھیں ان کی صلاحیتوں سے روشناس کرایا جائے، کبھی بھی ان کی غلطیوں پر انھیں سخت سزا نہ دی جائے اور انھیں اپنی پریشانیوں کا سامنا کرنے کے مثبت طریقے سکھائے جائیں۔

کیا پاکستان میں تشدد کی سوچ کو ختم کرنے کے لئے کچھ کیا جا رہا ہے؟ کیا اس حوالے سے ماہرین کی خدمات خاصل کی جا رہی ہیں؟ کیا ملک میں تشدد کی وجوہات جاننے اور اس کے خاتمے کے لئے میڈیا کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں؟ پتا نہیں۔ کیونکہ، میڈیا پر تو خود یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ڈراموں سے لے کر فلم تک اور فلموں سے لے کر خبروں تک میڈیا معاشرے کا تشدد دکھا بھی رہا ہے اور بار بار یہ سب کچھ دکھا کر تشدد بڑھا بھی رہا ہے۔

پچھلے دنوں دہشت گردی کے ایک واقعے میں کینیڈا میں جب فائرنگ کرکے ایک فوجی کو قتل کر دیا گیا، تو اسکولوں نے بچوں کے والدین کو تحریری ہدایات پہنچائیں کہ اس خبر کی وجہ سے ان کے بچوں کے ذہنوں پر پُرتشدد اثرات پڑ سکتے ہیں۔ تو اس سے بچنے کے لئے کیا جائے، یہاں تک کہ سانحہ پشاور ہوا تو پاکستان میں لیکن کینیڈا میں بچوں پر اس کے اثرات سے بچاوٴ کے اقدامات کئے گئے اور خود پاکستان میں اس حوالے سے کیا کیا گیا۔ پتا نہیں۔ لیکن، اتنا ضرور پتا ہے کہ ماہرین کے مطابق، معاشرے کو تباہی سے بچانے کے لئے، معاشرے سے تشدد کا خاتمہ ناگزیر ہے۔