پاکستان کے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے حکومتی عزم کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ ملک میں ایک جنگ کی سی صورتحال اور اس لڑائی کو جیتنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے عوام کو متحرک ہونا ہوگا۔
اسلام آباد میں ہفتہ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے تمام پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کے تین اجلاسوں اور عسکری قیادت کی مشاورت سے دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے تیار کیے گئے قومی ایکشن پلان کے نقاط کی ایک بار پھر وضاحت کی۔
انھوں نے دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی فوجی عدالتوں کے قیام کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہے کہ یہ صرف اور صرف دہشت گردوں کے خلاف ہی استعمال ہوں گی۔
"یہ صرف اور صرف دہشت گردوں کے خلاف ہیں، وہ جو ہماری مسجدوں پر حملے کرتے ہیں، ہماری خواتین اور بچوں کو مارتے ہیں کوئی چیز ان کے لیے منع نہیں ان کے سامنے کوئی قانون نہیں اور جب وہ پکڑے جاتے ہیں تو پھر وہ دھمکیاں دیتے ہیں۔۔۔دوسری طرف پاکستانی فوج یا پولیس ان لوگوں کو جہاں سے بھی گرفتار کرے گی ان کو باقاعدہ طریقہ کار کے تحت آرمی کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا جہاں انھیں صفائی کا پورا پورا موقع ملے گا۔"
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں ستمبر 2001ء میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد وہاں بھی خصوصی ٹربیونلز بنائے گئے تھے لہذا پاکستانی حکومت کی طرف سے کیا جانے والا یہ اقدام کوئی انوکھا عمل نہیں۔
16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ اس حملے میں 133 بچوں سمیت 149 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
چودھری نثار کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں، ان کی معاونت اور حمایت کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی اور ایسے عناصر کی نشاندہی کے لیے عوام ایک خصوصی فون نمبر 1717 پر اطلاع دے کر اپنا قومی فریضہ انجام دیں۔
دینی مدارس کے خلاف کارروائی سے متعلق بھی بعض حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا لیکن وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ ملک میں قائم مدرسوں کی اکثریت کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور یہ کارروائی صرف ان ہی مدارس کے خلاف ہوگی جن کے خلاف حکام کے پاس ثبوت ہوں گے اور ان کے بقول ایسے مدارس کی تعداد کافی کم ہے۔
انھوں نے اس موقع پر نام لیے بغیر چار برادر اسلامی ممالک کا تذکرہ بھی کیا جو پاکستان میں دینی تعلیم کے حوالے سے امداد فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ممالک سے بھی درخواست کی جائے گی کہ وہ اپنی معاونت کو سرکاری چینل کے ذریعے فراہم کریں اور اس بات کا پوری طرح سے یقین کر لیں کہ ان کی امداد دہشت گردی و انتہا پسندی کی کارروائی میں کسی طرح استعمال نہ ہو۔
وفاقی وزیرداخلہ نے میڈیا کو بھی محتاط اور ذمہ دار رویہ اپنانے کا کہتے ہوئے انتباہ کیا کہ دہشت گردوں کی مدح سرائی، ان کے بیانات، پیغامات یا دھمکیوں کو نشر کرنے سے گریز کیا جائے۔
پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی و انتہا پسندی کا سامنا ہے جس میں اب تک اس کے پچاس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستانی فوج نے گزشتہ سال جون سے شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی لیکن حکومت کے بقول اب یہ لڑائی ملک کے اندر بھی لڑی جائے گی اور دہشت گردوں کو کہیں بھی چھپنے کی جگہہ نہیں دی جائے گی۔
وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ 60 سے زائد کالعدم تنظیمیں ہیں جو نام بدل کر یا چھپ کر اپنی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اب ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی اور اگر یہ اپنے عمل سے باز نہ آئیں تو ان کے خلاف بھی فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔