|
ویب ڈیسک _ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف 2020 کے صدارتی الیکشن میں نتائج پلٹنے کی کوششوں سے متعلق ایک نئی فردِ جرم دائر کر دی گئی ہے۔
اسپیشل کونسل جیک اسمتھ کی جانب سے دائر کی گئی فردِ جرم میں وہی مجرمانہ الزامات موجود ہیں جو اس سے قبل دائر کردہ فردِ جرم میں تھے۔ البتہ سپریم کورٹ کی جانب سے امریکی صدور کو حاصل استثناٰ سے متعلق حالیہ فیصلے کے بعد نئی فردِ جرم میں ٹرمپ کے خلاف الزامات کو کم کیا گیا ہے۔
نئی فردِ جرم میں ٹرمپ کی جانب سے انتخابی نتائج پلٹنے کے لیے محکمۂ انصاف کے اختیارات استعمال کرنے کے الزام کو ہٹا دیا گیا ہے۔
مذکورہ الزامات سے متعلق سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے ٹرمپ کی ایک درخواست پر گزشتہ ماہ رائے دی تھی کہ سابق صدور کے سرکاری حیثیت میں کیے گئے اقدامات کو عدالتی کارروائی سے مکمل استثناٰ حاصل ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز کی یہ رائے 3-6 پر مشتمل تھی۔
اسپیشل کونسل کی جانب سے دائر نئی فردِ جرم اس ڈیڈ لائن سے محض تین روز قبل دائر کی گئی ہے جس میں استغاثہ اور وکلا صفائی کی جانب سے مذکورہ کیس کے جج کو یہ بتانا ہے کہ سپریم کورٹ کی رائے کی روشنی میں کیس کو کس طرح آگے بڑھایا جائے۔
فریقین آئندہ ہفتے عدالت کے روبرو پیش ہو کر دلائل دیں گے۔ اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر سے یہ کیس منجمد چلا آ رہا ہے جس کی وجہ ٹرمپ کی جانب سے دائر ہونے والی استثناٰ کی اپیل تھی۔
سابق صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل پلیٹ فارم 'ٹرتھ' پر اسپیشل کونسل کی جانب سے نئی فردِ جرم کو 'مایوسی میں اُٹھایا جانے والا' قدم قرار دیا ہے۔
سابق صدر کا کہنا تھا کہ یہ ایک طرح سے 'مردہ وچ ہنٹ' اور پرانی فردِ جرم میں شامل کیے گئے تمام الزامات ہیں جنہیں فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے۔
دوسری جانب اسپیشل کونسل کے دفتر نے کہا ہے کہ واشنگٹن کی وفاقی عدالت میں دائر نئی فردِ جرم ایک گرینڈ جیوری کی طرف سے جاری کی گئی تھی جس نے پہلے اس کیس میں شواہد نہیں دیکھے تھے۔
SEE ALSO: ٹرمپ کے خلاف تحقیقات: سابق نائب صدر مائیک پینس کی گرینڈ جیوری کے سامنے گواہیبیان کے مطابق نئی فرد جرم سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی حکومتی کوششوں کی عکاسی ہے۔
تازہ ترین فوجداری کیس میں مرکزی نظرثانی محکمۂ انصاف کے ساتھ ٹرمپ کے معاملات سے متعلق ہے جب کہ اصل فردِ جرم میں یہ الزامات شامل تھے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی شکست کو پلٹنے کی ناکام کوشش میں محکمے کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔
اصل فردِ جرم میں کہا گیا تھا کہ کس طرح ٹرمپ کے دور میں محکمۂ انصاف کے ایک اعلیٰ عہدیدار جیفری کلارک بعض ریاستوں میں منتخب عہدیداروں کو ایک خط بھیجنا چاہتے تھے جس میں بے بنیاد دعویٰ کیا گیا تھا کہ محکمے نے اہم خدشات کی نشان دہی کی ہے جو انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
فردِ جرم کے مطابق انہوں نے اعلیٰ حکام سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس پر دستخط کر دیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
فردِ جرم کے مطابق کلارک نے ٹرمپ کے انتخابی دھوکہ دہی کے دعوؤں کی حمایت کی جس کی وجہ سے ٹرمپ نے انہیں جیفری روزن کی جگہ قائم مقام اٹارنی جنرل لگانے پر غور شروع کر دیا تھا۔ ٹرمپ حکومت کے آخری ہفتوں میں جیفری روزن اس عہدے پر تعینات تھے۔
SEE ALSO: کیپٹل ہل کی عمارت پر حملے کی منصوبہ بندی، 'پراوڈ بوائز' کے لیڈر کو 22 سال قید کی سزاٹرمپ کے خلاف دائر اصل فردِ جرم کے مطابق جب انہیں یہ بتایا گیا کہ جیفری کلارک کی تعیناتی کی صورت میں محکمۂ انصاف میں بڑے پیمانے پر استعفے آ سکتے ہیں تو انہوں نے اپنا خیال ترک کر دیا جب کہ روزن ٹرمپ کے دور کے اختتام تک قائم مقام اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔
نئی فردِ جرم میں کلارک کو بطور شریک سازشی کے طور پر پیش نہیں کیا گیا اور کسی بھی فردِ جرم میں ٹرمپ کے ساتھ مل کر سازش کرنے والوں کا نام نہیں لیا گیا۔ لیکن ان کی شناخت عوامی ریکارڈ اور دیگر ذرائع سے ہوئی ہے۔
اسپیشل کونسل جیک اسمتھ کی جانب سے لائی گئی نئی فردِ جرم میں اب بھی ایک حیرت انگیز الزام شامل ہے کہ ٹرمپ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بائیڈن کی جیتی ہوئی 'بیٹل گراؤنڈ ریاستوں' میں دھوکہ دہی سے اپنی جیت کی تصدیق حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا۔
نئی فردِ جرم میں ٹرمپ پر یہ الزام دوبارہ دہرایا گیا ہے کہ انہوں نے قانونی الیکٹورل ووٹ کو مسترد کرنے کے لیے نائب صدر مائیک پینس پر دباؤ ڈالا تھا جب کہ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر ہنگامے کو ہوا دی جو بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کے عمل کو تاخیر میں ڈالنے کی کوشش تھی۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔