امریکہ نے سوڈان میں جاری خانہ جنگی کے سبب اپنے سفارتی عملے کے ارکان اور ان کے خاندانوں کو دارالحکومت خرطوم سے اتوار کی صبح نکال لیا ہے، جب کہ سفارت خانے کے امور عارضی طور پر معطل کر دیے گئے ہیں۔
امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ انہوں نے سوڈان میں فوج اور پیرا ملٹری فورس (آر ایس ایف) کے درمیان جاری کشیدگی کے سبب امریکہ کے سفارت خانے کو عارضی طور پر بند کرنے کا حکم دیا ہے۔
فوج اور پیرا ملٹری فورس کے تصادم کی وجہ سے بڑی تعداد میں عام شہریوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ سفارت خانے سے عملے کا انخلا مکمل ہو چکا ہے۔
صدر جو بائیڈن فورسز کے اہلکاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان فوجی اہلکاروں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے یہ آپریشن مکمل کیا۔
جو بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ انہیں سفارتی عملے کے غیر معمولی عزم پر فخر ہے جنہوں نے جرات اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیے اور سوڈان کے لوگوں کے ساتھ امریکہ کی دوستی اور تعلق کو قائم رکھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے فوجیوں کی بے مثال مہارت پر بھی مشکور ہیں جنہوں نے کامیابی سے سفارتی عملے کو محفوظ مقام تک پہنچایا۔
بائیڈن نے جبوتی، ایتھوپیا اور سعودی عرب کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس آپریشن کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
SEE ALSO: سوڈان کے حالات کا دنیا پر کیا اثر ہوگا؟اس آپریشن سے مطلع دو افراد نے معاملے کی حساسیت کی پیشِ نظر نام ظاہر نہ کرتے ہوئے امریکی خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کو بتایا کہ 70 افراد کو سفارت خانے سے ایئر لفٹ کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کا حکم صدر بائیڈن نے قومی سیکیورٹی کے مشیروں کی تشخیص کے بعد ہفتے کو دیا کہ یہ جنگ تھمنے والی نہیں۔
خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں بلنکن نے سوڈانی فوج کے سربراہ جنرل عبد الفتح برہان اور آر ایس ایف کے سربراہ جنرل محمد ہمدان دقلو سے متعدد بار بات چیت کی ہے۔
بلنکن نے دونوں جنرلوں سے مسلمانوں کے مذہبی تہوار عید کے موقع پر جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ یہ دونوں جنرل ماضی کے حلیف ہیں جنہوں نے مشترکہ طور پر 2021 میں ملک میں قائم حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جب کہ بعد ازاں اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں میں لگ گئے۔
سوڈان میں عسکری قوتوں کے درمیان لڑائی کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب عمر البشیر کے زوال کے چار سال بعد ایک نئی سویلین حکومت کی تشکیل کے لیے بین الاقوامی حمایت یافتہ اقتدار منتقلی کا منصوبہ شروع ہونا تھا۔
فوج اور نیم فوجی دستے دونوں ہی ایک دوسرے پر منتقلی کو ناکام بنانے کا الزام لگاتے ہیں۔
فریقین کے درمیان ایک ہفتے قبل شروع ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے 50 لاکھ سے زائد آبادی والا شہر خرطوم میں شدید تباہی ہوئی ہے جب کہ شہری اپنے گھروں میں قید ہونے پر مجبور ہیں۔
دونوں جانب سےبمباری جاری ہے جب کہ کئی دن سےرہائشی علاقوں کی بجلی منقطع ہے۔ لوٹ مار کرنے والے سڑکوں پر گھوم رہے ہیں جب کہ گھروں اور کاروباروں کو لوٹا جا رہا ہے۔
تصادم کے سبب عام شہری ہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 400 سے زائد عام افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ماہرین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خرطوم میں صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔
SEE ALSO: سوڈان: اقتدار پر قبضہ کرنے والے دو جنرلز ایک دوسرے کےخلاف کیوں لڑ رہے ہیں؟ہیومن رائٹس واچ کے واشنگٹن میں نائب ڈائریکٹر نکول وِڈرشیم نے بتایا کہ وہ خرطوم میں اپنے ماہرین سے رابطے میں ہیں جن کا کہنا ہے کہ عام شہری بمباری اور فضائی حملوں سے بچنے کی کوششوں میں ہیں۔ یہ تصادم بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا جمعے کو کہنا تھا کہ امریکی حکام سوڈان میں موجود سینکڑوں امریکی شہریوں سے رابطے میں ہیں۔
وزارت نے سوڈان میں موجود ایک امریکی شہری کی ہلاکت کی تصدیق بھی کی ہے جو کہ امریکی حکومت کا ملازم نہیں تھا۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اگست 2021 سے امریکیوں کو مشورہ دیا تھا کہ سوڈان کا سفر نہ کریں اور 16 اپریل کو خرطوم میں قائم امریکی سفارت خانے نے سیکیورٹی الرٹ جاری کیا تھا کہ خرطوم میں غیر یقینی سیکیورٹی صورت حال ہے۔
ترجمان نے مزید کہا تھا کہ اس وقت یہ ضروری ہے کہ سوڈان میں موجود امریکی شہری ان مشکل حالات میں محفوظ رہنے کے لیے انتظامات کریں۔
سوڈان کی سرحدیں سات ممالک سے ملتی ہیں جن میں مصر، سعودی عرب، ایتھوپیا اور افریقہ کے غیر مستحکم ساحلی علاقے شامل ہیں۔