رسائی کے لنکس

کراچی: 'نورجہاں ابھی جی سکتی تھی لیکن جلدی چلی گئی'


چڑیا گھر کی سترہ سالہ ہتھنی نور جہاں طویل علالت کے بعد ہفتے کو دم توڑ گئی۔ افریقی نسل کی یہ ہتھنی گزشتہ برس نومبر سے بیمار تھی جس کے بعد سے اب تک اس کی طبیعت نہ سنبھل سکی۔

کراچی چڑیا گھر میں کم عمر ہتھنی نور جہاں اپنی عمر سے ایک برس بڑی ساتھی مدھو بالا کے ساتھ رہتی تھی۔ اس سے قبل کئی برس انارکلی اس چڑیا گھر کی رونق تھی جس کی موت کے بعد ان دو ہتھنیوں نے یہاں کی رونق بڑھائی۔

میرے لیے اس چڑیا گھر کی یادیں بہت خاص ہیں میں نے اپنے بچپن میں یہاں بہت سے جانور دیکھے جو آج بھی یاد ہیں۔ اس وقت چڑیا گھر میں داخل ہوتے ہی شیر دکھائی دیتے تھے جو یہاں کی شان سمجھے جاتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوتا گیا۔ جانوروں کے پنجرے یا تو خالی نظر آتے یا جو جانور موجود ہوتے تو ان کی صحت خراب اور چہرے پر بھوک دکھائی دیتی۔

سن 2012 میں نجی کانٹریکٹرز سے خریدے جانے والے وائیٹ ٹائیگرز میں جب 2016 میں پر اسرار طور پر جلدی بیماری کی تشخیص ہوئی تو بھی یہ سوال اٹھایا گیا کہ یہاں موجود جانوروں کے طبی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ناقص پنجرے، فنڈز اور خوراک کی کمی ہے۔

لیکن اس وقت کی انتظامیہ نے یہ کہہ کر یہ الزام مسترد کیا کہ صرف چند برسوں میں لوگ اس چڑیا گھر میں ایسے پنجرے دیکھیں گے جو نہ صرف عالمی معیار کے ہوں گے بلکہ نئے جانوروں کا بھی اضافہ ہوگا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔


میرے لیے ہمیشہ سے اس چڑیا گھر میں خاص یہ ہاتھی یا پھر شیر ہی رہے۔ معصوم سے نظر آنے والے یہ دیو ہیکل ہاتھی چڑیا گھر میں آنے والے ہر چھوٹے بڑے کو نہ صرف خوش آمدید کہتے بلکہ اکثر بچوں کی جانب سے دیے جانے والے کیلے اپنی سونڈ سے لے کر کھانے کے بعد شکریے کے طور پر پھر سے اپنی سونڈ ہلاتے۔ بچو ں کے لیے یہ منظر بہت دلچسپ ہوتا کیوں کہ وہ اپنے سامنے ایک بھاری بھرکم جانور دیکھ رہے ہوتے تھے۔

میری یاد میں نورجہاں اور مدھو بالا کا تالاب میں نہانے کے بعد خوشی سے سینڈ باتھ لینا بھی ہے میں وہاں رپورٹنگ کی غرض سے موجود تھی کہ مجھے کیمرامین نے بتایا کہ نورجہاں تمہارے پیچھے ہے وہاں سے ہٹ جاؤ۔ مجھے ان ہتھنیوں کا خیال رکھنے والے نے اشارے سے کہا کہ میں ڈروں نہیں بلکہ کھڑی رہوں میں نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور اس نے سونڈ میں بھری مٹی مجھ پر اڑا دی اور ایک ادا سے اپنے کان ہلاتی ہوئی مڑ گئی۔

یہ اس کی خوشی اور اس انسیت کا اظہار تھا جو وہ وہاں ظاہر کرتی تھیں جن پر اسے اطمینان ہو کہ اس شخص سے اسے کوئی خطرہ نہیں۔ میں نے آخری بار اسی روز اسے اپنے ہاتھ سے گنے اور کیلے کھلائے تھے جہاں میرے ہاتھ رکتے وہ فوراً مجھ سے لے لیتی۔

اس نے اپنا کھانے کے دوران سر نیچے کیا ہوا تھا تو میں نے ڈر اور اپنائیت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ اس کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا جو اس نے قبول کیا۔ آج وہ شفیق، شوخ اور چنچل نورجہاں جو اس چڑیا گھر کی رونق تھی ہمیشہ کے لیے ہم سے دور ہوگئی۔


نورجہاں کی بیماری کی کوریج پر جب میرا اس سے سامنا ہوا تو مجھے وہ پہلے جیسی نظر نہیں آئی۔ اداس آنکھیں جن میں تکلیف صاف چھلک رہی تھی۔پچھلی ٹانگوں کو گھسیٹ کر چلنے والی نورجہاں ایسی تو نہ تھی یا شاید ہم اس کا خیال نہ رکھ پائے جس کی اسے ضرورت تھی۔

وہ بیماری کو پالتی رہی اور پھر نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اس کے علاج کے لیے پانچ اپریل کو جانوروں کے حقوق اور علاج کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم فور پاز کی ٹیم کو کراچی آنا پڑا جس نے نورجہاں کے علاج میں کئی گھنٹے کے دوران ایکسرے، سونوگرافی سمیت کئی ٹیسٹ کیے۔

نور جہاں کو نیم بے ہوشی کی حالت میں مزید ادویات اور ڈرپس دی گئیں۔ کئی گھنٹوں بعد نورجہاں نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی بلکہ اس نے چہل قدمی بھی کی۔

فورپاز کی ٹیم کے جانے کے بعد ان کی طرف سے ملنے والی ہدایات پر کراچی چڑیا گھر نے عمل کرتے ہوئے نورجہاں کو ادویات، مساج، ورزش اور چہل قدمی کرانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

عالمی معالجین کا کہنا تھا کہ نورجہاں کو مکمل صحت مند ہونے میں کم سے کم چھ ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن 13 اپریل کو نورجہاں معمول کی چہل قدمی کرتے ہوئے پانی کے تالاب میں اتر گئی جس میں گھنٹوں نہانے کے بعد وہ تھک کر بیٹھ گئی۔

بیماری اور جسمانی کمزوری کے سبب اس سے اٹھا نہیں گیا جس کے بعد فور پاز کی ٹیم سے آن لائن رابطے اور مشاورت سے چڑیا گھر کی انتظامیہ نے بیمار ہتھنی کو کرین کی مدد سے تالاب سے نکال کر ریت کے ٹیلے پر لٹایا جہاں وہ موت تک بے سدھ پڑی رہی۔


جانوروں سے پیار کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے رضاکارانہ طور پر نورجہاں کے لیے گرمی سے بچاؤ کے لیے پنکھوں اور خوراک کا بندوبست کیا۔ یہاں تک کہ چڑیا گھر کی انتظامیہ سمیت کئی رضاکار کئی روز مسلسل نورجہاں کے ساتھ رہے لیکن اس کی طبیعت میں کوئی بہتری نہ آسکی۔

عید کے روز جب چڑیا گھر میں رونق اپنے عروج پر ہوتی ہے وہ اس بار شہریوں کے لیے بند رکھا گیا۔

جمعے کو میں نے انتظامیہ سے دریافت کیا کہ کیا کل چڑیا گھر کھولا جائے گا؟ کیوں کہ رش کے سبب بیمار ہتھنی کو آرام میں پریشانی ہوسکتی ہے؟

اس پر مجھے بتایا گیا کہ نورجہاں کی حالت ٹھیک نہیں آج وہ شدید بخار کی کیفیت میں ہے۔ شاید وہ جینے کی تمام تر کوششیں کر چکی ہے۔ یہ جان کر مجھے ایسا لگا کہ یہ معصوم جانور جو ہم سب کی خوشی کا باعث تھا اب امید کھو چکا ہے کہ آج اس کی موت کی خبر آگئی۔

نور جہاں کی دیکھ بھال پر مامور یوسف مسیح اس کی موت پر آبدیدہ ہیں۔
نور جہاں کی دیکھ بھال پر مامور یوسف مسیح اس کی موت پر آبدیدہ ہیں۔

نورجہاں کی موت پر ڈائریکٹر زو، کنور ایوب کا کہنا تھا کہ بیماری کی تشخیص میں تاخیر نورجہاں کی موت کی بڑی وجہ بنی ہے فور پاز کی ٹیم سے رابطہ کیا گیا ہے جن کے آنے کے بعد اس کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا جس کے بعد ہی اسے دفنایا جائے گا۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی، ڈاکٹر سیف الرحمن کا اس موقع پر کہنا تھا کہ نورجہاں کل سے بخار میں مبتلا تھی۔ اسے بچانے کی تمام تر کوششیں کی گئیں لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔

فور پاز نے وائس آف امریکہ کو اس بات کی تصدیق کی ڈاکٹر عامر خلیل اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک پوسٹ مارٹم سے زیادہ اہم اب مدھو بالا کو یہاں سے بہتر جگہ منتقل کرنا ہے۔

فور پاز ٹیم کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی بیان میں ہتھنی نورجہاں کی موت پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ نو روز زندگی اور موت سے لڑ کر گزارنے والی ہتھنی نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی بارہاکوشش کی لیکن ناکام رہی جس کے بعد ہی اسے چڑیا گھر کی انتظامیہ نے کرین کی مدد سے تالاب سے باہر نکالا۔ اب اس موت کے بعد اس کی ساتھی مدھو بالا جو پہلے ہی نورجہاں کی بیماری کے وقت سے اس کے لیے بے چین اور پریشان ہے یہاں سے بہتر جگہ منتقل کردیا جائے تاکہ مستقبل میں پھر کسی ایسے نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔


فور پاز ٹیم کے ڈاکٹر عامر خلیل کا کہنا تھا کہ جب ہم نورجہاں کا علاج کر کے واپس لوٹے تو ہم پر امید تھے کہ وہ ٹھیک ہوجائے گی۔ ہم وہاں کی انتظامیہ سے مسلسل رابطے میں تھے۔ یہ انتہائی دکھ کی بات ہے وہ سترہ برس جی سکی ابھی اس کے پاس جینے کے لیے بہت سے سال باقی تھے۔

ڈاکٹر عامر خلیل کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کا چڑیا گھر عالمی معیار کے تقاضے پورے انہیں کرتا جہاں ہاتھیوں کی دیکھ بھال کی جاسکے یہاں تک کہ دیگر جانور وں کے لیے بھی علاج کے ماہرین کی شدید کمی ہے ایسے میں مدھو بالا سمیت دیگر جانوروں کو بہتر زندگی جینے کے لیے یہاں سے فوری منتقل کیا جانا چاہیے۔

کراچی میں پہلی بار ہاتھیوں کی ڈینٹل سرجری
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:27 0:00


فور پاز کے عالمی سی ای او جوزف پیفابائیگن کا کہنا تھا کہ نورجہاں کی موت پاکستانی حکام کے لیے یہ مثال ہے کہ وہ مستقبل میں جنگلی حیات کی بہتری کے لیے اقدامات کریں۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت چڑیا گھر کو مستقل بند کرتی ہے تو ہم اس فیصلے کو خوش آمدید کہیں گے کیوں یہ پاکستان میں جنگی حیات کے تحفظ اور بقا کے لیے ایک درست فیصلہ ہوگا۔

واضح رہے کہ نورجہاں کے علاج کے دوران فور پاز ٹیم کی موجودگی میں چڑیا گھر کی انتظامیہ نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ نورجہاں کے صحت مند ہوتے ہی اسے مدھو بالا سمیت کراچی کے سفاری پارک منتقل کردیا جائے گا جہاں پہلے سے ہی دو ہتھنیاں سونو اور ملکہ موجود ہیں۔

یہ چاروں مادہ ہاتھی 2009 میں افریقہ سے پاکستان لائے گئے اور یہاں پہنچتے ہی انہیں کراچی میں جوڑوں کی صورت میں چڑیا گھر اور سفاری پارک منتقل کیا گیا تھا۔ لیکن آج نورجہاں اپنی عزیز دوست مدھو بالا کو اکیلا چھوڑ کر چلی گئی جو پہلے ہی اس کی بیماری اور نقاہت سے بے چین دکھائی دے رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG