پاکستان نے بھارت کے سکھ یاتریوں کے لیے کرتار پور راہداری باضابطہ طور پور کھول دی ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان کے اس اقدام کو بھارت کو سیاسی ضرب لگانے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے 9 نومبر کو کرتار پور راہداری کا افتتاح کیا تو اس موقع پر انہوں نے جموں و کشمیر کا بھی بھر پور انداز میں ذکر کیا۔
وزیراعظم عمران خان سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی جذباتی انداز میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن اور وہاں لوگوں کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔
سکھ برادری کے لیے کرتارپور راہداری کھولنے پر جہاں مختلف ممالک دونوں ملکوں کے کردار کو سراہا رہے ہیں۔ وہیں کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں کشمیر کا ذکر کرنے پر بھارتی سیاسی اور صحافتی حلقوں میں اضطراب پایا جاتا ہے۔
اس تقریب میں بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کیپٹن ریٹائرڈ امریندر سنگھ بھی موجود تھے۔ جو اس سے قبل ایک انٹرویو کے دوران کرتار پور راہداری منصوبے کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا آپریشن قرار دے چکے ہیں۔
ہفتے کو گوردوارہ کرتار صاحب کے احاطے میں منعقدہ راہداری منصوبے کی افتتاحی تقریب میں سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ، بھارت کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے رہنما نوجوت سنگھ سدھو، بھارتی اداکار سنی دیول اور دیگر بھی شریک تھے۔
اس پروگرام کی کوریج کے لیے بھارت سے بھی خصوصی طور پر صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا۔
شاہ محمود قریشی اپنے خطاب کے دوران بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کا ذکر کرتے رہے اور ایک موقع پر بھارتی صحافیوں نے ان سے سوالات کیے تو وہ نریندر مودی پر تنقید کرنے لگے۔
بھارتی صحافی برکھا دت بھی راہداری منصوبے کی افتتاحی تقریب کی کوریج کے لیے پاکستان میں موجود تھیں۔
انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ لاکھوں سکھوں کے لیے یہ دن تاریخی تھا لیکن اس میں سیاسی عکس بھی دکھائی دیا۔
اُن کے بقول پاکستان نے اس تقریب میں نوجوت سنگھ سدھو کو مدعو اور کشمیر کا ذکر کیا جس کا مؤثر جواب بھارت کی وزارت خارجہ کی طرف سے آئے گا۔
ایک اور بھارتی صحافی تریودی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ کرتار پور راہداری منصوبے کی تقریب کو پروپیگنڈا مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا پاکستان کا منصوبہ ناکام ہوگیا ہے۔
اُن کے بقول شاہ محمود قریشی جب بھارتی صحافیوں سے ملاقات کے لیے اچانک عشائیے میں پہنچے تو انہوں نے بھارتی حکومت پر تنقید شروع کی اور جب ان سے سوالات کیے تو وہ تحمل مزاجی کھو بیٹھے۔
امریکی تھنک ٹینک 'دی ولسن سینٹر' میں ایشیا پروگرام کے اسکالر مائیکل کوگلمین نے ایک ٹوئٹ میں کرتارپورا راہداری کو جنوبی ایشیا کے لیے بڑی تبدیلی قرار دیا ہے۔
اُن کے بقول بعض لوگ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ راہداری منصوبے کے پس پردہ کچھ مقاصد ہیں۔ لیکن میرے نزدیک یہ ایک اچھی خبر ہے۔ کرتار پور راہداری کا کھلنا جذبہ خیر سگالی کے تحت ہے اور اس طرح کے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
بھارتی پروفیسر آشوک سوین نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کرتار پور راہداری کھل گئی۔ کم از کم ایک ملک ہے جو اپنے بانی کی بات سننے کی کوشش کر رہا ہے۔
کرتار پور راہداری کا پس منظر:
سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک دیو جی کی آخری آرام گاہ گوردوارہ کرتار پور صاحب بھارت کی سرحد سے تقریباً ڈھائی کلو میٹر دور پاکستان کی حدود میں واقع ہے۔
بہتر سالوں سے بھارتی سکھ اس گوروارے کا دیدار دوربین کے ذریعے کیا کرتے تھے۔ لیکن سکھوں کی یہ مشکل اس وقت دور ہوئی جب پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری کے دوران پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت سے تقریب میں شریک مہمان نوجوت سنگھ سدھو کو کرتار پور سرحد کھولنے کا اشارہ دیا۔
بعد ازاں یہ ملاقات خبروں کی زینت بنی اور کرتار پور راہداری پر دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات طے پائے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ برس نومبر میں کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھا اور گیارہ ماہ کی قلیل مدت میں اس منصوبے کو مکمل کیا۔
پاکستان نے اپنی حدود میں گوردوارے کی توسیع سمیت ایک سڑک، پل اور ایک کمپلیکس تعمیر کیا ہے۔ بھارتی سکھ یاتری روزانہ اب اس راہداری کے ذریعے بابا گرونانک کے مزار پر حاضری دے سکیں گے۔