ایسے میں جب کہ امریکی انٹیلیجنس ایجنسیاں چین کے خلاف اپنی کوششیں تیز کر رہی ہیں، اعلیٰ عہدیداروں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ چینی نژاد امریکیوں کی فون کالز اور ای میلز بھی جمع کر سکتے ہیں۔ اس بات پر شہری آزادیوں کو متاثر کرنے والی جاسوسی کے بارے میں نئے خدشات پیدا ہو رہے ہیں.
نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر کے دفتر سے جاری ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں متعدد سفارشات پیش کی گئی ہیں، بشمول غیر شعوری تعصب سے متعلق تربیت میں اضافہ اور اندرونی طور پر اس بات کا اعادہ کرنا کہ وفاقی قانون کسی کو صرف اس کی نسل کی وجہ سے نشانہ بنانے پر پابندی لگاتا ہے۔
امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں پر دباؤ ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں، جغرافیائی سیاست اور کووڈ نائنٹین کے وبائی امراض کی ابتداء جیسے معاملات پر چین کی فیصلہ سازی کو بہتر طور پر سمجھ سکیں -
SEE ALSO: روسی تیل کو بھارت، چین کی صورت میں نئی منڈیاں مل گئیںایجنسیوں نے بیجنگ پر توجہ مرکوز کرنے والے نئے مراکز اور پروگراموں کے ساتھ جواب دیا ہے۔ اسی اثنا میں جب چین کے بارے میں امریکہ کی سخت حکمت عملی کے لیے دو جماعتی حمایت موجود ہے، شہری حقوق کے گروپس اور وکلاء میں چینی نسل کے لوگوں کی بڑھتی ہوئی نگرانی کے مختلف اثرات کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔
قومی سلامتی کے نام پر شہریوں کے گروہوں کے ساتھ امریکی حکومت کے امتیازی سلوک کی ایک طویل تاریخ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی نژاد امریکیوں کو حراستی کیمپوں میں جانے پر مجبور کیا گیا، 1960 کی دہائی میں شہری حقوق کی تحریک کے دوران سیاہ فام رہنماؤں کی جاسوسی کی گئی، اور 11 ستمبر کے حملوں کے بعد مساجد کی نگرانی کی گئی۔ چینی نژاد امریکیوں کو 1882 کے چینی اخراج کے قانون کی طرف واپس جانے کے بعد امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ پہلا قانون تھا جس میں کسی مخصوص نسلی برادری پر ریاستہائے متحدہ ہجرت کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی۔
SEE ALSO: مذہبی آزادی کی سالانہ رپورٹ کانگریس کو پیش، ایغور مسلم اقلیت کے خلاف جبر کے چینی رویے پراظہار تشویشایڈوکیسی گروپ ایشین امریکن فیڈرل ایمپلائز فار نان ڈسکریمینیشن کی شریک بانی آریانی اونگ نے نوٹ کیا کہ ایشیائی نسل کے لوگوں پر بعض اوقات "وفادار امریکیوں کے طور پر مکمل طور پر بھروسہ نہیں کیا جاتا۔" انہوں نے کہا کہ 31 مئی کو شائع ہونے والی یہ رپورٹ اس بات چیت کے لیے مفید ہو گی جسے انہوں نے شہری حقوق اور قومی دفاع کے امتزاج کے طور پر بیان کیا ہے۔
اونگ اور دیگر وکلاء نے محکمہ انصاف کے "چائنا انیشی ایٹو" کی طرف اشارہ کیا، جسے بیجنگ کی طرف سے اقتصادی جاسوسی اور ہیکنگ کی کارروائیوں کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ محکمہ انصاف نے پروگرام کا نام اس وقت ختم کر دیا جب یہ امریکی کالج کیمپس میں ایشیائی نژاد امریکی پروفیسروں کے خلاف کمزور قانونی کارروائیوں سے وابستہ ہو گیا۔
رپورٹ میں نمایاں ہونے والا ایک ممکنہ تضاد وہ ہے جسے " انسیڈینٹل کولیکشن" یعنی واقعات کو جمع کرنا کہا جاتا ہے۔
غیر ملکی ہدف کی نگرانی میں، انٹیلیجنس ایجنسیاں اس امریکی شہری کے ساتھ ہدف کی بات چیت یا رابطوں سے متعلق معلومات حاصل کر سکتی ہیں جو زیر تفتیش نہیں ہے۔ ایجنسیاں امریکی شہریوں کی فون کالز یا ای میلز بھی جمع کرتی ہیں جب وہ غیر ملکیوں سے زیادہ تر بات چیت کرتے ہیں۔
نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے پاس ملکی اور غیر ملکی مواصلات کی نگرانی کرنے کے وسیع اختیارات ہیں، جیسا کہ ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے افشا ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے۔ این ایس اے کے قوانین کے تحت، نئے غیر ملکی ہدف کو نگرانی میں رکھنے کے لیے دو افراد کے دستخط چاہیے ہوتے ہیں۔ این ایس اے وفاقی قانون اور انٹیلی جنس رہنما خطوط کے تحت امریکی شہریوں کی شناخت کو چھپاتا ہے اور اندرونی معاملات پر کچھ اہم اشارے ایف بی آئی کے حوالے کرتا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ نے چین سے 'مقابلے' میں آگے رہنے کے لیے حکمتِ عملی کا اعلان کر دیاایف بی آئی بغیر کسی وارنٹ کے این ایس اے کے ڈیٹا میں جمع بعض معلومات تک پہنچ سکتی ہے۔ شہری حقوق کے ایڈووکیٹس ایک طویل عرصے سے استدلال دیتے آ رہے ہیں کہ سیکشن 702 کے تحت تلاشیاں اقلیتی کمیونیٹیز کو غیر متناسب انداز میں ہدف بناتی ہیں۔
آفس آف دا ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس (او ڈی این آئی) کی رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ چینی نژاد امریکیوں کو واقعات کے جمع کرنے کی کاروائی میں اس قدر رسک کا ہی سامنا ہو سکتا ہے جس قدر ایک ایسے امریکی کو جس کا خاندانی پس منظر چین سے نہیں ہے لیکن وہاں کاروباری یا نجی تعلقات کا حامل ہے۔
رپورٹ میں مصنوعی ذہانت کے پروگراموں کا جائزہ لینے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ "تاریخی تعصبات اور امتیازی سلوک کو برقرار رکھنے سے گریز کریں۔" رپورٹ میں انٹیلی جنس کمیونٹی کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ ان لوگوں کے لیے غیر شعوری تعصب سے متعلق تربیتی پروگراموں میں اضافہ کریں جو معلومات جمع کرنے پر مامور ہیں۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)