پرانی عادتوں کو چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔سرد جنگ کے زمانے میں جاسوسی کے کیسوں میں کینیڈا کے جعلی شناختی کاغذات عام استعمال ہوتے تھے اور حال ہی میں جن جاسوسوں کو امریکہ نے روس بھیجا ہے، ان میں سے کم از کم چار جاسوس ایسے تھے جن کے پاس کینیڈا کے جعلی شناختی کاغذات تھے یا انھوں نے کینیڈا کے اصل کاغذات حاصل کر لیے تھے۔
یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے پروفیسر ویزلی وارک کہتے ہیں کہ اس واقعے پر کینیڈا میں سکیورٹی کے حلقوں میں خاصی کھلبلی مچی ہوئی ہے ۔ اس واقعے میں کینیڈا کی دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ ان جاسوسوں کی اچھی خاصی تعداد نے کینیڈا کے شہریوں کی شناخت اختیار کر لی تھی اور کینیڈا میں یہ سوال کیا جا رہاہے کہ یہ کس طرح ممکن ہوا۔کسی جاسوس کو معاشرے کا حصہ بنانے کے لیے ایک فرضی شخصیت تخلیق کی جاتی ہے لیکن یہ شخصیت حقیقت پر مبنی ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے لیے پاسپورٹ اور ڈرائیورز لائسنس جیسے کاغذات حاصل کرنے پڑتے ہیں۔
امریکہ اور کینیڈا کی سرحد 6,400 کلومیٹر طویل ہے اور اس میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں سے سرحد پار کی جا سکتی ہے ۔ فروری 2008 تک ، سرحد پار کرنے کے لیے صرف شہریت کا زبانی اعلان کرنا کافی تھا۔ اب پاسپورٹ یا حکومت کی طرف سے جاری کردہ سفری شناختی کارڈ ضروری ہے ۔
پرائیویٹ انٹیلی جنس فرم اسٹارٹفار کے تجزیہ کار فریڈ بَرٹَن کہتے ہیں کہ غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور دہشت گر د گروپ دونوں کینیڈا یا آئر لینڈ کے شناختی کے کاغذات کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ اس طرح وہ زیادہ آسانی سے نقل و حرکت کر سکتے ہیں۔’’بعض دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کینیڈا کے باشندے کی حیثیت سے سفر کرنے میں پکڑے جانے کا خطرہ کہیں کم ہے ۔ اگر آپ کو کسی جاسوس سے کام لینا ہے، تو آپ سوچیں گے کہ میں کسی روسی کو استعمال نہیں کر سکتا کیوں کہ اس طرح ایف بی آئی خبردار ہو جائے گی۔اب ہوم لینڈ سکیورٹی کا مسئلہ موجود ہے، نو فلائی لسٹ ہے۔ پور ے امریکہ میں اب شناخت کا مسئلہ موجود ہے۔ تو سب سے کم خطرہ کس چیز میں ہے؟ جب آپ اس نقطۂ نظر سے اس معاملے کو دیکھتے ہیں تو ذہن کینیڈا یا آئر لینڈ کی طرف جاتا ہے۔‘‘
موجودہ کیس سے پہلے ، 2006 میں کینیڈا کے حکام نے ایک شخص کو جس نے اپنا نام پال ولیم ہیمپل بتایا تھا ، گرفتار کیا تھا۔ اس شخص کے پاس پیدائش کا سرٹیفیکٹ اور پاسپورٹ دونوں جعلی تھے ۔ اس پر روس کا جاسوس ہونے کا الزام عائد کیا گیا لیکن اس کے باوجود کہ اسے سفارتکار کا درجہ حاصل نہیں تھا، اس پر مقدمہ نہیں چلایا گیا بلکہ خاموشی سے ملک سے نکال دیا گیا۔
بعض کیسوں میں جاسوس فوت ہو جانے والے چھوٹے بچوں کی پیدائش کے اصل سرٹیفیکٹ حاص کر لیتے ہیں اور ان کی بنیاد پر شناختی کارڈ بنوا لیتے ہیں۔ کافی عرصہ ہوا جب کینیڈا میں ایک سوویت جاسوس کو پکڑا گیا تھا جو قبروں پر لگے ہوئے کتبوں سے چھوٹے بچوں کے نام اور ان کی پیدائش کی تاریخیں نقل کر رہا تھا ۔
انٹیلی جنس کے ماہر ویزلی وارک کہتے ہیں کہ کینیڈا کے شناختی کارڈوں کے بارے میں 11 ستمبر، 2001 کے دہشت گردوں کے حملوں کے بعد تشویش میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔’’دوسرے ملکوں کی طرح ، ہمیں اس ملک میں بھی کینیڈا کے کاغذات کی بنیاد پر پاسپورٹ کی سکیورٹی اور شناخت کے جعلی کاغذات کے بارے میں تشویش رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد ہم نے اس سے بچاؤ کے لیے سخت کوشش کی ہے۔ ہمیں ڈر یہ تھا کہ دہشت گردوں کے ہاتھ کینیڈا کے پاسپورٹ اور شناخت کے کاغذات نہ لگ جائیں جنھیں وہ ساری دنیا میں سفر کے لیے استعمال کرنے لگیں۔ لیکن اب یہ مسئلہ جاسوسی کی شکل میں پھر سامنے آ گیا ہے۔‘‘
نائن الیون کے حملہ آوروں میں سے کوئی بھی کینیڈا سے امریکہ میں داخل نہیں ہوا تھا اور نہ کسی کے پاس کینیڈا کے شناختی کاغذات تھے۔ لیکن احمد ریسام جسے 1999 میں لاس اینجیلیس ایئرپورٹ کو بم سے اڑانے کی سازش کے جرم میں سزا ہوئی، کینیڈا کا جعلی پاسپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، اگرچہ کینیڈا میں اس کی پناہ گزیں قرار دیے جانے کی درخواست نا منظور ہو چکی تھی اور 1997 میں جن لوگوں نے اردن میں حماس کے لیڈر کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی ، اور جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی ایجنٹ تھے ، ا ن کے پاس بھی کینیڈا کے پاسپورٹ تھے ۔
گذشتہ سال کینیڈا کی پولیس نے ایک گینگ کو پکڑا جو اعلیٰ درجے کے جعلی پاسپورٹ اور امریکہ کے گرین کارڈز سمیت ، جعلی دستاویزات تیار کر رہا تھا۔ تمام ملکوں میں حکام ایسے پاسپورٹ اور کاغذات تیار کر رہے ہیں جن کی نقل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ لیکن جعلی پاسپورٹ تیار کرنا اب بھی بہت بڑا اور منافع بخش کاروبار ہے ۔ پولیس کے بین الاقوامی ادارے، انٹر پول نےکہا ہے کہ 2009 کے آخر تک اس کے ڈیٹا بیس میں11 لاکھ جعلی پاسپورٹ جمع ہو چکے تھے ۔