سری لنکا اپنے اخراجات گھٹانے کے لیے اگلے سال سے اپنی فوج میں ایک تہائی کی کمی کرنے کے منصوبے پر عمل شروع کر دے گا۔ وزیر دفاع پریمتھا بندارا تھینکون نے جمعے کے روز بتایا کہ حکومت اپنی فوج کی موجودہ تعداد میں لگ بھگ 35 ہزار کی کمی کرے گی۔
اس وقت سری لنکا کی فوج ایک لاکھ 35 ہزار نفوس پر مشتمل ہے جسے منصوبے کے مطابق 2030 تک ایک لاکھ تک لایا جائے گا۔
سری لنکا کو اس وقت گزشتہ 70 برسوں کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اسے ڈیفالٹ کرنا پڑا کیونکہ زر مبادلہ کی شدید قلت کے باعث وہ اپنے ذمے واجب لادا بیرونی ادائیگیوں کے قابل نہیں رہا تھا۔
زرمبادلہ کی کمی کے نتیجے میں سری لنکا میں خوراک، ایندھن اور ادویات کی شدید قلت ہو گئی ہے۔
SEE ALSO: چینی فنڈنگ کے پراجیکٹ سری لنکا کے معاشی بحران میں اضافے کا باعث ہیں : تجزیہ کاروزیر دفاع کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجی اخراجات بنیادی طور پر ریاستی اخراجات ہیں جو بالواسطہ طور پر قومی اور انسانی سلامتی کو یقینی بنانے کے ذریعے اقتصادی ترقی کی راہیں کھولتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تھینکون نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد 2030 تک ملک کو تکنیکی اور حکمت عملی کے لحاظ سے ایک صحیح اور متوازن دفاعی قوت بنانا ہے۔
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2017 اور 2019 کے دوران سری لنکا کی افواج تین لاکھ 17 ہزار فوجیوں پر مشتمل تھیں جب کہ باغی گروپ لبیریشن ٹائیگرز کے ساتھ 25 سالہ جنگ کے دوران یہ تعداد اس سے بھی زیادہ تھی۔ 2009 میں ٹائیگرز کی بغاوت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
SEE ALSO: سری لنکا میں خوراک کا بحران مزید شدید ہو گیا، اقوام متحدہ کی مدد کی اپیلکولمبو میں قائم ایک تھنک ٹینک ویریٹ ریسرچ کا کہنا ہے کہ 2021 میں سری لنکا کی کل قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں دفاعی شعبے کا حصہ 2 اعشاریہ 31 فی صد تھا جو 2022 میں گھٹ کر 2 اعشاریہ 03 فی صد رہ گیا تھا۔
سمندر سے گھرے اس ملک کی کل آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ ہے اور اس کی آمدنی کا زیادہ تر انحصار سیاحت پر ہے جسے کرونا وائرس کی عالمی وبا کے پھیلاؤ سے سخت نقصان پہنچا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے حاصل کی گئی ہیں۔)