سری لنکا کے صدر گوتابایا راجا پکسے کے ملک سے فرار کے بعد وزیرِ اعظم رانیل وکراماسنگھے نے ملک بھر میں ایمرجنسی اور مغربی صوبے میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق وزیرِ اعظم ہاؤس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جب تک صدر ملک سے باہر ہیں اس وقت تک صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی حالت نافذ رہے گی۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق وزیرِ اعظم کے میڈیا سیکریٹری ڈینوک کولمبیج کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نے قائم مقام صدر کی حیثیت سے مغربی صوبے میں کرفیو کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے۔
ایمرجنسی کے اعلان کے بعد ہزاروں مظاہرین وزیرِ اعظم آفس کے باہر جمع ہو گئے جنہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وزیرِ اعظم وکراما سنگھے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں۔ اس سے قبل صدر گوتابایا نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بدھ کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے تاہم وہ استعفے کا اعلان کیے بغیر بذریعہ فوجی طیارہ مالدیپ پہنچ گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ صدر پکسےبدھ کو اپنی اہلیہ اور دو محافظوں کے ہمراہ فضائیہ کے طیارے میں ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
سرکاری ذرائع اور صدر پکسے کے قریبی حلقوں کا بتانا ہے کہ مفرور صدر اس وقت مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں ہیں جب کہ امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ قانون کے تحت موجودہ صدر کو ملک چھوڑنے سے نہیں روکا جا سکتا تھا۔
رپورٹس کے مطابق صدر کے ملک چھوڑنے کے فیصلے کے بعد اپنے اتحادی وزیرِ اعظم رانیل وکراما سنگھے کو قائم مقام صدر کے طور پر چھوڑ کر جانے سے احتجاج میں شدت آئی ہے۔
مظاہرین نے ایوانِ وزیرِ اعظم کا بھی رخ کیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
رانیل وکراما سنگھے نے ایک بیان میں کہا کہ مظاہرین کے پاس ایوانِ وزیرِ اعظم میں توڑ پھوڑ کا کوئی جواز نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ پارلیمانی نظام کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سب کو آئین کا احترام کرنا چاہیے۔ اسی وجہ سے سیکیورٹی اداروں نے تجویز دی کہ ایمرجنسی اور کرفیو کا نفاذ کیا جائے۔
اس سے قبل پیر اور منگل کی درمیانی شب سری لنکن صدر نے متحدہ عرب امارات فرار ہونے کی کوشش کی تھی تاہم ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام سے تکرار کے بعد وہ ہوائی اڈے کے قریب واقع ملٹری بیس پر چلے گئے تھے۔
واضح رہے کہ سری لنکا میں معاشی بحران کے خلاف گزشتہ کئی ماہ سے احتجاج کا سلسلہ جاری تھا۔ ہفتے کو مظاہرین نے صدارتی محل کا گھیراؤ بھی کیا تھا جس کے بعدصدر گوتابایا راجاپکسے نے اعلان کیا تھا کہ وہ بدھ کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے تاکہ متحدہ حکومت قائم کی جا سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'رائٹرز' نے صدر گوتابایا کے قریبی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ صدر اپنا استعفیٰ بدھ کو ہی پیش کر دیں گے۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم پہلے ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کی پیش کش کر چکے ہیں۔ سری لنکن آئین کے مطابق اگر وزیرِ اعظم بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے ہیں تو اس صورت میں پارلیمنٹ کے اسپیکر مہندا یاپا ابی وردنا قائم مقام صدر بن جائیں گے اور وہ اس وقت تک اس عہدے پر فائز رہیں گے جب تک نئے صدر کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔
اسپیکر ابی وردنا نے پانچ روز قبل کہا تھا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس 14 جولائی کو ہو گا جس میں ملک کے نئے صدر کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس کب ہو گا اور صدر گوتابایا کے استعفے کے بغیر نئے صدر کا انتخاب کس طرح کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ راجا پکسے خاندان گزشتہ کئی برسوں سے سری لنکا کی سیاست میں نمایاں پوزیشن پر رہا ہے۔ موجودہ صدر گوتابایا کے بھائی مہندا راجا پکسے نے شدید عوامی احتجاج کے بعد مئی میں وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دیا تھا۔ جب کہ ان کے ایک اور بھائی باسل نے رواں برس اپریل میں وزیرِ خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
SEE ALSO: سری لنکا کی معیشت کیوں تباہ ہوئی اور آگے کیا ہوسکتا ہے؟واضح رہے کہ عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال نے سری لنکا کے سیاحت کو بری طرح متاثر کیا تھا جب کہ بیرونِ ملک سے آنے والے زرِ مبادلہ میں کمی اور کھادوں میں استعمال ہونے والے کیمیل پر پابندی نے بھی سری لنکا کی معیشت کو دھچکا دیا تھا۔
سری لنکا کو پیٹرول، گیس، خوراک اور ادویات کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ ایندھن کے حصول کے لیے شہریوں کو طویل قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور یہ صورتِ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔
سری لنکا میں گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح 54 اعشاریہ چھ فی صد ریکارڈ کی گئی تھی اور مرکزی بینک نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران یہ 70 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں اداروں اے ایف پی اور رائٹرز سے لیا گیا۔