ایک خاتون سمیت چار افراد کی ہلاکت کے بعد، سری نگر میں ایک بار پھر کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
سری نگر کے بٹمالو علاقے میں گذشتہ شام ہی سے کشیدگی کا ماحول تھا کیونکہ علاقے میں پولیس کارروائی کے دوران ایک 17سالہ نوجوان مظفر احمد بٹ کے لاپتا ہونے کے بعد مقامی آبادی سڑکوں پر اُمڈ آئی تھی۔
ذرائع کے مطابق، منگل کی صبح نوجوان کی لاش ایک قریبی دلدل میں پڑی ملی تھی جِس علاقے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے اور اِس دوران بعض مقامات پر مشتعل نوجوانوں نے پولیس اور نیم فوجی دستوٕ ں پر پتھراؤ کیا۔
بھارت کی وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) نے احتجاجی مظاہرین پر پھر گولی چلا دی۔ ایک اور نوجوان ، فیاض احمد موقعے پر ہی ہلاک ہوگیا جب کہ کم سے کم ایک اور شخص کے گولی لگی۔
بعد ازاں، حتجاجی مظاہروں کے دوران جب دونوں نوجوانوں کے تابوت ایک قریبی قبرستان کی طرف لے جائے جار رہے تھے تو پولیس نے اشک آور گیس کے گولے داغ کر اور ہوا میں فائرنگ کرکے جلوسِ جنازہ کو منتشر کردیا۔پولیس کی سوگواروں پر یلغار کچھ اس قدر زوردار تھی کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اُنھوں نے دونوں میتوں کو بیچ سڑک چھوڑ کر محفوظ مقامات کی راہ لی۔ پولیس نے لاشوں کو اپنے قبضے میں لے لیا لیکن جب پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ مزید علاقوں تک پھیل گیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صورتِ حال ہاتھ سے نکلتی نظر آنے لگی تو اُنھوں نے لاشوں کو تجہیز و تدفین کے لیے اُن کے رشتہ داروں کو لوٹا دیا۔
سری نگر کے پرانے شہر میں ایک مجمعہ، جِس کی قیادت میر واعظ عمر فاروق کر رہے تھے، سڑک پر احتجاجی دھرنہ دیا اور جلوس نکالا۔ بٹمالو کے ہی علاقے میں پولیس کی طرف سے چلائی گئی گولی اپنے مکان میں بیٹھی ایک خاتون کو جا لگی جِس سے وہ موقعے پر ہی ہلاک ہوگئی، جب کہ معصومہ بستی میں پولیس فائرنگ میں ایک اور نوجوان ابرار احمد مارا گیا۔ اِس طرح تازہ واقعات میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر چار ہوگئی ہے۔