گورو دوارہ کارتہ پروان کبھی سکھ یاتریوں سے بھرا ہوتا تھا مگر اب صرف چند یاتری ہی یہاں نظر آتے ہیں اور ایک طویل خاموشی اس جگہ محسوس ہوتی ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اب گورو دوارہ کارتہ پروان سکھوں کا آخری عبادت گاہ ہے اور اس میں بھی گنتی کے لوگ ماتھا ٹیکنے آتے ہیں کیوں کہ سکھوں کی بڑی تعداد افغانستان سے نقل مکانی کر چکی ہے۔
گورودوارے کے گرنتھی گرنام سنگھ یہاں کی رونقیں مانند پڑتے دیکھ کر بہت اداس ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں حالات موسم کی طرح بدلتے رہتے ہیں اور حالات خراب ہوں تو سب ہی چلے جاتے ہیں۔
گرنام سنگھ کہتے ہیں کہ اس وقت افغانستان میں سکھوں کی کل تعداد 140 رہ گئی ہے جو زیادہ تر جلال آباد اور کابل میں مقیم ہیں۔
کابل میں کارتہ پروان کا یہ علاقہ ہندو اور سکھ برادریوں کے بڑی تعداد میں یہاں آباد ہونے کی وجہ سے مسلم اکثریت والے ملک افغانستان میں تنوع کی عکاسی کرتا رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق تنوع کسی بھی ملک کا معاشرتی حسن ہوتا ہے اور یہ اکثریت سے نہیں، اقلیتوں سے آتا ہے۔ جو ہر ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔
افغانستان میں 1970 کے عشرے میں سکھوں کی آبادی ایک لاکھ تک تھی۔ مگر اس ملک میں عشروں سے جاری تنازعات اور غربت نے اس آبادی کے لگ بھگ تمام لوگوں کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔
SEE ALSO: کابل میں گردوارے پر حملہ، 25 افراد ہلاکسوویت قبضے کے خاتمے کے بعد طالبان کی حکومت اور پھر امریکہ کی قیادت میں فوجی مداخلت کے باعث سکھوں کی افغانستان سے نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق کمیونٹی نے جو حساب رکھا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال یہ تعداد 240 رہ گئی تھی اور پھر جب گزشتہ اگست طالبان افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آئے تو باقی ماندہ سکھوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان چھوڑ کر چلی گئی۔
60 سالہ من موہن سنگھ کمیونٹی لیڈر اور برسوں سے کارتہ پروان میں رہائش پذیر ہیں۔ ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ60 سال پہلے جب یہ گورو دوارہ تعمیر ہوا تھا تو آس پاس سکھوں کی بڑی آبادی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں مزید 87 لوگ افغانستان چھوڑ کر گئے ہیں۔
وہ اپنے محلے کی رونقوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خوشی، غم، سب ہم نے یہاں مل جل کر بسر کیا۔ پہلے گورو دوارہ تعمیر ہوا تھا۔ پھر اس کے گرد باقی عمارتیں، پھر وہ اسکول بنا جس میں انہوں نے بھی تعلیم حاصل کی۔ اب تو گراؤنڈ میں بچے بھی کھیلتے نظر نہیں آتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہر مذہب کے ماننے والوں کی طرح من موہن سنگھ کے لیے بھی سب سے قیمتی چیز ان کی مذہبی کتاب ’گرو گرنتھ صاحب‘ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جاتے ہوئے لوگ گورو گرنتھ صاحب کی دو جلدیں اپنے ساتھ لے گئے۔ وہ دہلی میں گورو دوارے میں محفوظ کی جائیں گی۔ یہاں اب ایک ہی جلد رہ گئی ہے۔
اگست 2021 میں ملک پر طالبان کے قبضے کے بعد جب بڑی تعداد میں لوگ افغانستان سے نقل مکانی کر رہے تھے تو بھارت نے یہاں مقیم سکھوں کے لیے ترجیحی ویزے کی پیشکش کی تھی۔
افغانستان سے بڑی تعداد میں سکھ بھارت نقل مکانی کر گئے ۔ دنیا بھر کے ڈھائی کروڑ سکھوں میں سے 90 فی صد بھارت کی ریاست پنجاب میں آباد ہیں۔
بھارت کی یہ پیشکش افغانستان کے تمام سکھوں کو پر کشش نہیں لگی۔40 سالہ منجیت سنگھ ایک فارما سسٹ ہیں۔ان کی بیٹی تو اپنے شوہر کے ساتھ نئی دہلی چلی گئی مگر وہ کہتے ہیں کہ وہ بھارت جا کر کیا کریں گے؟ وہاں نہ تو کوئی نوکری ہے نہ رہنے کے لیے گھر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گھر تو وہیں ہوتا ہے جہاں آپ نسلوں سے آباد ہوں جو آپ کا وطن ہے، جہاں آپ کے آباؤ اجداد نے زندگی کی ابتدا کی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے سکھوں نے افغانستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔
گرنام سنگھ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا وطن ہے۔ وہ ایک افغان شہری ہیں ۔ اپنا وطن چھوڑ کر کون جاتا ہے۔ بس مجبوری ہے جو لوگوں کو یہاں سے لے گئی۔
ان کے بقول مجبوری، تنگ دستی اور کبھی خوف انسان کو ہجرت پر مجبور کر دیتا ہے۔ کو ئی بڑا واقعہ بھی نقل مکانی کا سبب بن جاتا ہے۔
اکتوبر 2021 میں نامعلوم مسلح افراد کارتہ پروان کے اس گورودوارے میں گھس آئے اور توڑ پھوڑ کی۔ اس سے پہلے مارچ 2020 میں داعش خراسان نامی گروپ کے لوگوں نے کابل کے قدیم ترین گورود وارے 'ہر رائے صاحب' پر حملہ کیا تھا جس میں 25 لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ تب سے یہ گورود وارہ اور قریبی دھرم شالہ بند پڑے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اگست میں افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوگیا۔ سکھوں کی بڑی تعداد افغانستان چھوڑ کر چلی گئی۔ پر م جیت کور کے حالات اب بھی نہیں بدلے۔ ان کے بچے سکول نہیں جاتے، خود وہ خوف کے مارے گورو دوارے کی چار دیواری سے باہر کبھی نہیں جاتیں۔مگر بچوں کے بہتر مستقبل کی فکر انہیں کھائے جاتی ہے۔
پرم جیت کور اب بھی یہی سمجھتی ہیں کہ افغانستان سے نکلیں گی تو ان کے بچوں کی زندگی بہتر ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ شوہر کام نہیں کرتا۔ بچے ابھی تو چھوٹے ہیں۔ ابھی سے افغانستان چھوڑ کر کسی اور ملک میں قسمت آزمائی کریں تو شاید بچوں کو بہتر زندگی دے سکیں۔
پرم جیت کور کے چہرے پر پریشانیوں کے سائے اور آنکھوں میں مستقبل کی بے یقینی صاف نظر آتی ہے مگر کوئی انہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ اپنا وطن چھوڑ کر جانے پر بھی ان کے دن بدلیں گے یا نہیں۔
اس رپورٹ میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔