نیٹو کے سیکریٹری جنرل یینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ ترکیہ سویڈن کو نیٹو کا رکن بنانے پر رضامند ہو گیا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان لتھو انیا میں نیٹو سربراہ اجلاس سے ایک روز پہلے کیا ہے۔
اسٹولٹن برگ نے ایردوان اور سویڈش وزیرِ اعظم اولف کرسٹرسن کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا کہ ترک صدر رجب طیب ایر دوان سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کا معاملہ ترک پارلیمنٹ کو بھجوانے پر رضامند ہو گئے ہیں ۔
ترک اعتراضات کے باعث سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کا معاملہ ایک سال سے رکا ہوا تھا۔
پیر کے روز صدر ایردوان نے کہا تھا کہ اگر یورپی ممالک ترکیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کی راہ ہموار کریں تو انقرہ نیٹو میں سوئیڈن کی شمولیت کی توثیق کرسکتا ہے۔
یورپی یونین کمشن کی ترجمان ڈینا سپیننٹ نے کہا تھا، "آپ ترکیہ کے سلسلے میں دونوں طریقہ کار کو باہم ملا نہیں سکتے۔"
اس سے قبل امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ٹیلیفونک رابطے میں صدر ایردوان نے سوئیڈن کی مغربی اتحاد میں شمولیت پر اپنے تحفظات کا اعادہ کیا تھا۔
ترکیہ کے مطالبات کے بعد سوئیڈن نے انسدادِ دہشت گردی کے ایک نئے قانون سمیت اصلاحات کے نفاذ کا اعلان کیا ہے ۔
ترکیہ سوئیڈن پر کرد عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ نرمی برتنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ایک شخص کی جانب سے قرآن نذر آتش کرنے کے بعد ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت سے متعلق سوئیڈن سے بات چیت ایک بار پھر معطل کردی تھی۔
بائیڈن کا ایردوان سے ٹیلی فونک رابطہ
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب لیتھونیا میں منگل کو مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو کا اجلاس منعقد ہونے والا ہے۔
دریں اثنا امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے لتھوانیا کے دارالحکومت ویلنیئس جاتے ہوئے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان سے ٹیلی فون پر بات چیت کی تاکہ ترکیہ کی جانب سےسوئیڈن کی نیٹو اتحاد میں شمولیت پر رضامندی کی راہ ہموار ہو سکے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے لندن جاتے ہوئے ایئر فورس ون میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا "میں یہ نہیں بتا سکتا کہ (ایسا ہونا) کتنا قریب یا کتنا دورہے، میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سوئیڈن کو جلد از جلد نیٹو میں شامل کیا جانا چاہیے۔"
وائس آف امریکہ کی پیٹسی وڈاکوسوارا کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے کوئی راستہ ہونا چاہیے۔‘‘
دوسری طرف ترکیہ نے صدر جو بائیڈن کی فون کال پر اپنے ردِ عمل میں کہا کہ سوئیڈن نے درست سمت میں کچھ اقدامات کیے ہیں لیکن اسٹاک ہوم کی نیٹو میں شمولیت کی درخواست کو تقویت دینے کے لیے خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی گئی ۔
ترکیہ نے سوئیڈن پر الزام لگایا تھا کہ وہ عسکریت پسند کرد تنظیموں کے ساتھ بہت نرمی برتتا ہے جنہیں ترکیہ دہشت گرد گروہ قرار دے چکا ہے۔
گزشتہ ماہ سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ایک شخص کی جانب سے مسجد کے باہر قرآن نذر آتش کرنےکے بعد ترکیہ کے مؤقف میں مزید سختی آئی ہاور اس نے شدید برہمی کا اظہار کیا ۔
ترکیہ کے مطالبات کے بعد سوئیڈن نے انسدادِ دہشت گردی کے ایک نئے قانون سمیت اصلاحات کے نفاذ کا اعلان بھی کیا ۔
SEE ALSO: امریکہ کا سوئیڈن میں قرآن جلانے کے واقعے پر اظہار تشویشایردوان نے ابتدائی طور پر فن لینڈ پر بھی اسی نوعیت کا الزام لگایاتھا لیکن اپریل میں نیٹو میں شامل ہونے کے لیے ہیلسنکی کی درخواست منظور کر لی گئی تھی۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کا کہنا تھا کہ بائیڈن اور ایردوان نے ایف سولہ طیاروں کی فروخت پر تبادلۂ خیال کیا ہے جو ایک ایسا موضوع ہے جو عوامی طور پر انکار کے باوجود انقرہ کے لیے اہم ہے۔
انقرہ کے مطابق ایردوان نے کہا کہ سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کو ایف سولہ طیاروں کی فروخت کے ساتھ جوڑنا غلط ہوگا۔ انہوں نےانقرہ کی لڑاکا طیاروں کی خریداری کی خواہش پر بائیڈن کی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔
امریکی کانگریس میں دونوں جماعتوں کے قانون سازوں کے پاس ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دینے کا اختیار ہے۔ یہ قانون ساز زور دیتے آئے ہیں کہ اس سے پہلے کہ یہ معاہدہ آگے بڑھ سکے۔انقرہ کو سوئیڈن کی شمولیت پر اپنے اعتراضات کو ختم کر دینا چاہیے۔
ہنگری نے بھی سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کی ہتھی تاہم کہا تھاکہ اگر ترکیہ رضامند ہو جاتا ہے تو وہ بھی اسے منظور کر لے گا۔
نیٹو اتحاد میں یوکرین کی شمولیت کا معاملہ
اگرچہ یوکرین میں روس کی جنگ نیٹو کے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں سرِ فہرست ہے لیکن اتحاد میں شامل ہونے کی کیف کی خواہش فی الوقت پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
یوکرین نے گزشتہ سال روس کے حملے کے بعد نیٹو میں شامل ہونے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی تھیں۔ تاہم امریکہ اور جرمنی ایسےکسی بھی اقدام کے بارے میں محتاط ہیں جو نیٹو اتحاد کو روس کے ساتھ تصادم کے قریب لے جانے کا سبب بنے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے گزشتہ برس 24 فروری کو پڑوسی ملک یوکرین میں ہزاروں فوجی بھیجنے کے اپنے فیصلے کی ایک اہم وجہ یہ بتائی تھی کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران روس کی سرحدوں کی طرف نیٹو میں توسیع ہوئی ہے۔
نیٹو اتحاد میں توسیع کے لیے تمام 31 ارکان کا متفق ہونا ضروری ہے اور نیٹو کے سیکریٹری جنرل یینز اسٹولٹن برگ نے سربراہی اجلاس میں کیف کے لیےکسی باضابطہ دعوت کو پہلے ہی خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔
SEE ALSO: نیٹو یوکرین کو رکنیت دینے سے گریزاں کیوں؟اسٹولٹن برگ نے اس اپریل میں کیف کے ایک غیر معمولی دورے میں کہا کہ یوکرین نیٹو میں حقیقی جگہ کا حق دار ہے۔
تاہم بعد میں انہوں نے واضح کیا کہ جب تک روس کے ساتھ جنگ جاری ہے وہ اس عسکری اتحاد میں شامل نہیں ہو سکے گا ۔
رپورٹس کے مطابق روسی فوجیں اب یوکرین کے مشرق اور جنوب کے زیادہ حصے پر قابض ہیں۔
اس رپورٹ میں کچھ معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔