کراچی سے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب لاپتا ہونے والے صحافی محمد عسکری 24 گھنٹوں کے بعد خود گھر واپس آ گئے ہیں۔
تاحال یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ان کو کس ادارے نے تحویل میں لیا تھا اور ان کو تحویل میں لینے کی وجوہات کیا تھیں۔
ملک کے ایک بڑے اخبار ’روزنامہ جنگ‘ سے کراچی میں وابستہ رپورٹر سید محمد عسکری کو ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب بعض نامعلوم افراد ساتھ لے گئے تھے جب اس کے بعد سے ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا تھا۔
صحافی کے اہلِ خانہ نے ان کی گمشدگی سے متعلق ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست بلوچ کالونی تھانے میں جمع کروائی تھی اور صحافیوں کی تنظیموں نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے مقامی رپورٹر کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
محمد عسکری رات گئے شادی کی تقریب سے دوست کے ساتھ واپس گھر جا رہے تھے کہ قیوم آباد انٹرچینج کے قریب سے انہیں سادہ لباس میں ملبوس نامعلوم نقاب پوش افراد اپنے ہمراہ لے گئے۔
روزنامہ جنگ سے کراچی میں وابستہ صحافی اور کرائم رپورٹر ثاقب صغیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پہلے ان کے دوست کو بھی گاڑی میں ساتھ بٹھا لیا گیا۔ تاہم کچھ فاصلے پر جاکر ان کے دوست کو اتار دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران محمد عسکری نے مبینہ اغواء کاروں کو اپنا تعارف کراتےہوئے بتایا کہ وہ جنگ کے رپورٹر ہیں لیکن نامعلوم افراد نے ایک نہ سنی اور زد و کوب کرتے ہوئے گاڑی سے اتارا اور دوسری گاڑی میں ڈال کر ساتھ لے گئے۔
ان کے بقول محمد عسکری کے ساتھ موجود دوست گاڑی لے کرصحافی کے دفتر پہنچے اور وہاں موجود اسٹاف کو اس واقعے سے آگاہ کیا۔
محمد عسکری گزشتہ 30 برس سے کراچی میں رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ وہ جنگ اخبار کے لیے تعلیم سے متعلق خبروں پر کام کرتے ہیں۔
محمد عسکری کے لاپتا ہونے پر کراچی پریس کلب، کراچی یونین آف جرنلسٹس، ایجوکیشن جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور سیگر صحافتی اداروں نےبھی مذمت کرتے ہوئے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔
صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ اغوا کے بعد اس حوالے سے کوئی بھی سرکاری مؤقف سامنے نہ آنا سنجیدہ معاملہ ہے۔
ادھر صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران سید محمد عسکری کی مبینہ گمشدگی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ صحافی کی گمشدگی پر صوبے کی پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) غلام نبی میمن اور جنگ اخبار کی انتظامیہ کے درمیان رابطہ ہوا ہے۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے ایک بیان میں سید محمد عسکری کے لاپتا ہونے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھاکہ کسی بھی صحافی کو اس طرح کسی الزام کے بغیر اغوا کرنا جمہوری حقوق کے خلاف ہے۔
اس سے قبل بھی پاکستان میں صحافیوں کے اغواء، انہیں زد و کوب کرنے اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں اٹھائے جانے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ بعض واقعات صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک میں ہوتا ہے۔
دنیا بھر کے صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ کی تازہ ترین رینکنگ کے مطابق پاکستان صحافتی آزادیوں سے متعلق دنیا میں 180 ممالک کی فہرست میں اس وقت 150ویں نمبر پر ہے۔
اگرچہ اس سے قبل گزشتہ سال پاکستان کا اس فہرست میں نمبر 157واں تھا لیکن صحافی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے مطابق حقیقت میں یہاں آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کی موجودہ خراب صورتِ حال میں کوئی خاص بہتری دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔