|
پاکستان اسٹاک مارکیٹ کا صرف ایک سال قبل 100 انڈیکس 40 ہزار پوائنٹس کے قریب تھا۔ لیکن رواں ماہ جون میں کے ایس سی 100 انڈیکس 79 ہزار کی بلند سطح پر پہنچ چکا ہے۔
اسٹاک مارکیٹ کے متعدد تجزیہ کار اس میں مزید تیزی کی توقع بھی کر رہے ہیں۔
اگر مارکیٹ میں سودوں کی کُل مالیت کی بات کی جائے تو یہ ایک سال میں پاکستانی روپوں میں کوئی 95 فی صد بڑھ چکی ہے جب کہ ایک سال میں امریکی ڈالر میں بھی سودوں کی مالیت 100 فی صد بڑھی ہے۔
حکومت اسے معیشت میں بڑھتے ہوئے استحکام سے تعبیر کر رہی ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سرمایہ کاروں کا بڑھتا ہوا اعتماد ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں ٹھیک سمت میں چل رہی ہیں۔
بعض تجزیہ کار اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کو معاشی ترقی کا پیمانہ ماننے سے گریز کر رہے ہیں اور اسے حقیقی معیشت سے جدا سمجھتے ہیں۔
اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کیوں؟
پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے معاشی تجزیہ کار شہریار بٹ کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں حالیہ تیزی کی کئی وجوہات ہیں۔ بجٹ میں توقع کی جا رہی تھی کہ حکومت اپنے ٹیکس اہداف پورے کرنے کے لیے سرمایہ کاروں کے خالص منافعے کو متاثر کرنے والے کیپٹل گین ٹیکس اور ڈیویڈنڈ پر عائد ٹیکس میں اضافہ کرے گی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور اس کا مثبت اثر مارکیٹ نے لیا۔
ان کے مطابق ٹیکس فائلرز کے لیے کیپٹل گین ٹیکس پر 15 فی صد ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی حالاں کہ یکم جولائی سے شیئرز کی خریداری پر ایک سال سے زیادہ کے ود ہولڈنگ پر سلیب فوائد کو ہٹا دیا گیا ہے اور ڈیویڈنڈ پر ٹیکس میں بھی 15 فی صد پر کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے یکم جولائی کے بعد خریداری پر ایک سال سے زیادہ سیکیورٹیز رکھنے کے لیے کیپٹل گین ٹیکس پر سلیب وار فائدہ ہٹا دیا ہے۔ تاہم ٹیکس فائلرز کے لیے ٹاپ سلیب کی شرح 15 فی صد پر کوئی تبدیلی نہیں کی گئی جب کہ نان ٹیکس فائلرز کی شرح کو 30 فی صد سے بڑھا کر 45 فی صد کر دیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام مارکیٹ کے لیے کافی مثبت ثابت ہوا ہے کیوں کہ مارکیٹ میں یہ افواہ تھی کہ حکومت کیپیٹل گین ٹیکس کو مکمل اور حتمی ٹیکس سے نارمل ٹیکس میں تبدیل کرنے پر غور کر رہی ہے۔
SEE ALSO: دو سال میں لاکھوں ہنرمند پاکستانی ملک کیوں چھوڑ گئے؟اسی طرح فائلرز اور نان فائلرز دونوں کے لیے ڈیویڈنڈ یعنی شیئرز پر منافعے کی آمدنی کے لیے ٹیکس کی شرح میں بھی کوئی تبدیلی تجویز نہیں کی گئی ہے۔
شہریار بٹ کے مطابق یہ مارکیٹ کے لیے ایک اور مثبت قدم ہے کیوں کہ کچھ خبریں ایسی تھیں کہ ڈیویڈنڈ کی آمدنی پر ٹیکس بڑھے گا۔ اس کے علاوہ ڈیویڈنڈ کی آمدنی کو عام آمدنی میں تبدیل کرنے کے بارے میں قیاس آرائیاں کی گئیں۔ لیکن اس بارے میں کوئی تبدیلی نہ کیے جانے سے مارکیٹ مثبت ثابت ہو رہی ہے۔ اسی طرح بونس ٹیکس میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ پیش کرنے سے قبل حکومت کی جانب سے ان ممکنہ اقدامات کے خدشات کے پیش نظر مارکیٹ میں دو ہفتوں کے دوران 4 فی صد یا 3 ہزار 174 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی تھی۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات، سرمایہ کاروں کا اعتماد
شہریار بٹ کے مطابق سرمایہ کاروں کو یہ بھی توقع ہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان نئے قرض پروگرام میں مثبت پیش رفت ہو رہی ہے اور حالیہ پیش کیا جانے والا بجٹ بھی آئی ایم ایف کی دی گئی ہدایات کے مطابق تیار ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ٹیکس محصولات، بنیادی سرپلس اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی آئی ایم ایف کے دیے گئے اہداف کے قریب یا عین مطابق رہے ہیں۔
ان کے بقول ان تمام اشاریوں سے لگتا ہے کہ جولائی کے آغاز میں پارلیمان سے فنانس بل منظور ہونے کے بعد فنڈ سے اسٹاف لیول ایگریمنٹ متوقع ہے، جس سے پاکستان کے لیے نئے پروگرام میں داخلے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ان وجوہات کی بنا پر بھی سرمایہ کاروں کو اعتماد ملا ہے اور اس سے مارکیٹ میں حالیہ دنوں میں کافی تیزی دیکھنے میں ملی۔
شرح سود میں کمی اور ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس کا نفاذ
ایک اور تجزیہ کار سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ حکومت کے بجٹ سے چند روز قبل ہی اسٹیٹ بینک نے ملک میں شرح سود میں ڈیڑھ فی صد کمی کا اعلان کیا۔ اس اعلان سے وہ سرمایہ کار جنہوں نے رقوم بینکوں میں بہتر منافع کے لیے رکھی ہوئی تھی وہ وہاں سے نکال کر اسٹاک مارکیٹ میں لے کر آئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا ہے کہ ملک میں شرح سود اب بھی کافی زیادہ ہے اور اس میں رسک فیکٹر کم ہونے کی وجہ سے زیادہ تر سرمایہ کار اب بھی بینکوں ہی میں پیسہ رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
لیکن دوسری جانب سلمان نقوی کے مطابق یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں سرمایہ بچا کر رکھنے کی دوسری جگہ رییل اسٹیٹ ہے۔ لیکن آج کل ریئل اسٹیٹ کا کام زیادہ اچھا نہیں چل رہا کیوں کہ لوگوں کی قوتِ خریداری کافی حد تک متاثر ہوئی ہے اور حالیہ بجٹ میں اس سیکٹر پر ٹیکس ریٹ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اس لیے بعض بڑے سرمایہ کاروں نے وہاں سے پیسہ نکال کر اسٹاک مارکیٹ میں بھی لگانا شروع کیا ہے اور یہ رجحان گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔
اس کے ساتھ کسی حد تک بیرونی سرمایہ کاروں نے بھی اسٹاک مارکیٹ کا رخ کرنا شروع کیا ہے۔
شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے گزشتہ چھ ماہ میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جو کافی خوش آئند بات ہے۔
مارکیٹ کیپٹلائزیشن اب بھی کم
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تمام تیزی کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں شیئرز کی کُل قیمت ماضی کے مقابلے میں اب بھی کافی کم ہے۔
سال 2017 میں جب انڈیکس 53 ہزار کی سطح پر تھا تو اس وقت مارکیٹ کیپٹلائزیشن 95 ارب ڈالر کی لگ بھگ تھی جب کہ اس وقت اس کی امریکی ڈالرز میں مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 38 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا ہے کہ ایک سال قبل یہ رقم 20 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی جو اب 18 ارب ڈالر بڑھ چکی ہے اور یہ خوش آئند ہے۔
اگر پاکستانی روپے میں بات کی جائے تو سال 2017 میں پاکستانی روپوں میں مارکیٹ کی قیمت 10 ہزار 500 ارب روپے تھی جب کہ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر بھی مارکیٹ ویلیو پاکستانی روپوں میں 10 ہزار 400 ارب کے لگ بھگ تھی۔
گزشتہ چند برس میں روپے کی قدر میں شدید کمی ہوئی ہے۔ اس لیے مارکیٹ کو ٹھیک طریقے سے جانچنے کا طریقہ ڈالر ٹرمز ہی میں ہے اور اس کو دیکھ کر انداز لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت پاکستانی اسٹاک مارکیٹ کی مجموعی قیمت ماضی کے مقابلے میں کافی کم ہے۔
چند لاکھ لوگوں کو ملنے والا منافع
اسٹاک مارکیٹ کے تجزیہ کار اعظم خان کا کہنا ہے کہ صرف ایک سال میں 42 ہزار سے 78 ہزار پر انڈیکس پہنچنے کا ایک مطلب تو یہ ضرور ہے کہ معاشی ترقی پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ ملک کی اسٹاک مارکیٹ میں کام کرنے والے سرمایہ کاروں کی کُل تعداد کتنی ہے اور اس کی کُل کیپٹلائزیشن کس قدر ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ 25 کروڑ کی لگ بھگ آبادی میں دو لاکھ 72 ہزار مجموعی سرمایہ کار ہیں۔ ان میں سے مشکل سے 50 ہزار سرمایہ کار روزانہ کام کرتے ہیں۔ پس اگر مارکیٹ میں شیئرز کی ویلیو بڑھ رہی ہے تو 50 ہزار کے قریب لوگوں کو اس کے کم یا زیادہ فوائد تو منتقل ہو رہے ہیں جب کہ دیگر دو لاکھ 22 سرمایہ کاروں کو بھی کچھ نہ کچھ فائدہ ملنے کی توقع ہے۔ لیکن 25 کروڑ کی آبادی والے ملک میں دو لاکھ لوگوں کو پہنچنے والے فائدہ کو عام آدمی کا فائدہ تو کسی صورت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اعظم خان نے مزید کہا کہ پاکستان میں ہر سال آبادی کا صرف ایک فی صد ہی اسٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کرتا ہے جب کہ بھارت میں سال 2015 سے 2024 کے عرصے میں سرمایہ کاروں کی تعداد میں 379 فی صد اضافہ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 10 ہزار ارب روپوں کی لگ بھگ پاکستانی مارکیٹ میں بڑے شئیرز میں دو ہزار ارب روپے بینکوں کا حصہ ہیں۔ آئل اینڈ گیس سیکٹر کے شئیرز کی کل ویلیو 1400 ارب روپے کے قریب ہے جب کہ فرٹیلائزرز اور سیمنٹ کی مل کر 200 ارب روپے کی کیپٹلائزیشن ہے اور فوڈ پروڈکٹس کی بھی ایک ہزار ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
ان کے بقول ان پانچ سیکٹرز میں مجموعی طور پر 20 کے قریب کمپنیاں ہیں جنہیں بھرپور فوائد مل رہے ہیں اور یہی مارکیٹ میں تیزی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کے شیئرز کی ویلیو میں یقیناََ اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور ان میں سب سے زیادہ کمانے والا سیکٹر بینکنگ سیکٹر ہے۔
حقیقی معیشت کی بحالی
مالیاتی مبصر سلمان نقوی کہتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی اچھی ہے یا بُری، اگر حقیقی معیشت کو بحال نہیں کیا گیا تو اس کا کوئی مطلب نہیں۔
ان کے مطابق حقیقی معاشی کارکردگی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی اسٹاک مارکیٹ کے درمیان فرق کرنا بہت ضروری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ دونوں مل کر ہی حرکت کریں۔ پچھلے کچھ برس میں جب حقیقی معیشت کسی حد تک کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی تو ریئل اسٹیٹ مارکیٹ عروج پر تھی لیکن اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی غیر تسلی بخش تھی۔ تاہم اب یہ تیزی پکڑ رہی ہے اور ریئل اسٹیٹ اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں حقیقی معیشت سست روی کا شکار ہے اور گزشتہ سال منفی رہنے کے بعد اس سال بھی محض دو اعشاریہ 19 کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے جو بے حد کم ہے۔
ان کے مطابق معیشت کی سست روی کا نتیجہ کم نمو اور زیادہ بے روزگاری کی شکل میں سامنے آ رہا ہے اور بد قسمتی سے یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے اور اسے تیزی سے بڑھتی ہوئی اسٹاک مارکیٹ سے چھپایا نہیں جا سکتا۔ اس لے حکومت کو چاہیے کہ معیشت کی بحالی کے لیے ہی اپنی توانائی صرف کرے۔