تحقیق کے مطابق ایسے افراد جو معاشرے سے کٹے رہتے ہیں اور لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے، ان کے جلد مرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
واشنگٹن —
ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ لوگوں میں گھل مل کر رہنے والے بزرگ افراد تنہائی کا شکار اپنے ہم عمروں سے لمبی عمر پاتے ہیں۔
گوکہ ماضی میں بھی ایسی ان گنت تحقیقی رپورٹیں سامنے آئی ہیں جن میں تنہائی کا شکار افراد کے جلد مرنے کی نشاندہی کی جاچکی ہے، لیکن یہ پہلی تحقیق ہے جس میں کہا گیا ہے درحقیقت تنہائی بذاتِ خود کوئی مسئلہ نہیں۔
لیکن پھر اصل مسئلہ ہے کیا؟
یونی ورسٹی کالج لندن کے پروفیسر اینڈریو اسٹیپٹو کے مطابق درحقیقت ان افراد کے جلد مرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جو اپنے دوستوں اور اہلِ خانہ سے یا تو بالکل قطعِ تعلق کرلیتے ہیں یا بہت کم روابط رکھتے ہیں اور کھیلوں اور کلب وغیرہ جیسی کسی سماجی سرگرمی کا بھی حصہ نہیں بنتے۔
پروفیسر اسٹیپٹو کے مطابق انہوں نے بڑی عمر کے مرد و خواتین کی معلومات کا تجزیہ کیا تو انہیں ان کی تنہائی اور جلد موت کا شکار ہوجانے کے درمیان کوئی مضبوط تعلق نہیں ملا۔
لیکن ان کے بقول جب انہوں نے انہی افراد کے سماجی رویوں کا تجزیہ کیا تو یہ پتا چلا کہ ایسے افراد جو معاشرے سے کٹے رہتے ہیں اور لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے، ان کے جلد مرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
تحقیق سے منسلک ماہرین کے مطابق یہ بالکل ممکن ہے کہ تنہا رہنے والا کوئی فرد یا جوڑا اپنے اہلِ خانہ اور دوست احباب سے مستقل رابطے میں رہے اور مختلف سماجی سرگرمیوں میں بھی شریک ہو۔
ماہرین کے بقول اس طرح کے صحت مند طرزِ زندگی کے حامل افراد اگر تنہا بھی رہیں تو بھی ان کے جلد مرنےکی شرح معمول کے تقریباً مطابق ہوتی ہے۔
لیکن اصل مسئلہ ان افراد کے لیے ہے جنہوں نے تمام سماجی رابطے منقطع اور سرگرمیاں معطل کردی ہوں اور خود کو اپنی ذات تک ہی محدود کر رکھا ہو۔
پروفیسر اسٹیپٹو کے بقول اس طرح کی کیفیت کا شکار عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں مختلف وجوہات کی بنا پر عمر کے آخری حصوں میں دیہی علاقوں سے بڑے شہروں کی جانب ہجرت کرنا پڑتی ہے جہاں باہمی رابطے انتہائی محدود ہوتے ہیں۔
گوکہ ماضی میں بھی ایسی ان گنت تحقیقی رپورٹیں سامنے آئی ہیں جن میں تنہائی کا شکار افراد کے جلد مرنے کی نشاندہی کی جاچکی ہے، لیکن یہ پہلی تحقیق ہے جس میں کہا گیا ہے درحقیقت تنہائی بذاتِ خود کوئی مسئلہ نہیں۔
لیکن پھر اصل مسئلہ ہے کیا؟
یونی ورسٹی کالج لندن کے پروفیسر اینڈریو اسٹیپٹو کے مطابق درحقیقت ان افراد کے جلد مرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جو اپنے دوستوں اور اہلِ خانہ سے یا تو بالکل قطعِ تعلق کرلیتے ہیں یا بہت کم روابط رکھتے ہیں اور کھیلوں اور کلب وغیرہ جیسی کسی سماجی سرگرمی کا بھی حصہ نہیں بنتے۔
پروفیسر اسٹیپٹو کے مطابق انہوں نے بڑی عمر کے مرد و خواتین کی معلومات کا تجزیہ کیا تو انہیں ان کی تنہائی اور جلد موت کا شکار ہوجانے کے درمیان کوئی مضبوط تعلق نہیں ملا۔
لیکن ان کے بقول جب انہوں نے انہی افراد کے سماجی رویوں کا تجزیہ کیا تو یہ پتا چلا کہ ایسے افراد جو معاشرے سے کٹے رہتے ہیں اور لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے، ان کے جلد مرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
تحقیق سے منسلک ماہرین کے مطابق یہ بالکل ممکن ہے کہ تنہا رہنے والا کوئی فرد یا جوڑا اپنے اہلِ خانہ اور دوست احباب سے مستقل رابطے میں رہے اور مختلف سماجی سرگرمیوں میں بھی شریک ہو۔
ماہرین کے بقول اس طرح کے صحت مند طرزِ زندگی کے حامل افراد اگر تنہا بھی رہیں تو بھی ان کے جلد مرنےکی شرح معمول کے تقریباً مطابق ہوتی ہے۔
لیکن اصل مسئلہ ان افراد کے لیے ہے جنہوں نے تمام سماجی رابطے منقطع اور سرگرمیاں معطل کردی ہوں اور خود کو اپنی ذات تک ہی محدود کر رکھا ہو۔
پروفیسر اسٹیپٹو کے بقول اس طرح کی کیفیت کا شکار عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں مختلف وجوہات کی بنا پر عمر کے آخری حصوں میں دیہی علاقوں سے بڑے شہروں کی جانب ہجرت کرنا پڑتی ہے جہاں باہمی رابطے انتہائی محدود ہوتے ہیں۔