چین کی فی گھرانہ ایک بچہ پالیسی سے نہ صرف ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے میں مدد ملی ہے بلکہ اس سے گذشتہ تین عشروں کے دوران تیز تر معاشی ترقی بھی حاصل ہوئی ہے۔ لیکن ایک ایسے ملک میں سماجی تحفظ کی بنت محدود ہے، وہاں اس پالیسی کے باعث بزرگ والدین کو اپنی اکلوتی اولاد پر انحصار کرنے پر مجبور ہونا پڑرہاہے۔
ایسے والدین کو انتہائی غیر یقینی صورت حال کا سامنا کرنا پڑرہاہے جن کے بچے ان کی زندگیوں میں ہی ہلاک ہوگئے تھے اور وہ حکومت سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ بڑھاپے میں ان کی مدد کی جائے۔
اپنی واحد اولاد سے محروم والدین کے لیے چین میں’ شیدوزہے‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور کچھ عرصے سے یہ لفظ چینی میڈیا اور انٹرنیٹ پر ایک علامت کے طورپر استعمال ہورہاہے اور اس پس منظر میں حکومت کی آبادی پر کنٹرول کی پالیسی پر نکتہ چینی کی جارہی ہے۔
گذشتہ مہینے ایک سو سے زیادہ درخواست گذار بیجنگ میں واقع آبادی پر کنٹرول کے مرکزی دفتر کے سامنے اکھٹے ہوئے ، جو سب اپنی اکلوتی اولاد سے محروم تھے اور یہ مطالبہ کررہے تھے کہ اب حکومت ان کی دیکھ بھال کرے۔
معروف چینی رسالے ’سدرن ویکلی‘ نے، جو ایک عرصے سے اس مسئلے پر آواز اٹھا رہاہے، اپنی حالیہ اشاعت میں لکھا ہے کہ مدد اور کفالت کا مطالبہ کرنے والے ان بوڑھے والدین کو حکومت سے کبھی کوئی جواب نہیں ملا۔
بیجنگ یونیورسٹی کے پروفیسر مو لوانگ زونگ کہتے ہیں کہ وہ اپنی اکلوتی اولاد سے محروم ہوجانے والے خاندانوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی مدد کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ایک بچہ فی گھرانہ کی پالیسی کا چین بھر میں نفاذ 1979ء میں ہواتھا۔
اس پالیسی میں اقلیتوں، دیہاتوں میں رہنے والوں اور بعض دوسرے گروپوں کو ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ماہرین کا تخمینہ ہے کہ فی کنبہ فی بچہ پالیسی کااطلاق صرف 36 فی صد چینی باشندوں پر ہوتا ہے۔ جن کی کل تعداد 48 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
33 برسوں سے نفاذ اس پالیسی کے نتیجے میں ان خاندانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنے اکلوتے بچے سے محروم ہوچکے ہیں اور وہ اپنی عمر کے اس دور میں ہیں کہ ایک اور بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ایسے خاندانوں کی درست تعداد کا تخمینہ لگانا مشکل ہے لیکن 2006ء کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 37 ہزار سے زیادہ ایسی مائیں موجود تھیں جن کے عمریں 49 سال سے زیادہ تھیں اور وہ اپنی اکلوتی اولاد سے محروم ہوچکی تھیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ 2038 تک یہ تعداد بڑھ کر چار گنا ہوسکتی ہے۔
چینی معاشرے میں والدین کا اپنی اکلوتی اولاد سے محروم ہونا ایک معاشی صدمہ بھی ہے کیونکہ وہاں بوڑھے والدین کی دیکھ بھال اور کفالت عموماً اولاد ہی کے ذمے ہوتی ہے۔
چین میں قومی سطح پر پنشن کا نظام 1997ء میں متعارف کرایا گیاتھا، لیکن ابھی تک اس کادائرہ شہری آبادی کے کچھ حصے تک ہی محدود ہے اور دیہی آبادی اس کے فوائد سے محروم ہے۔
زیادہ تر تنہا والدین کو تقریباً 15 ڈالر ماہانہ کی اس امدادی رقم پر بمشکل اپنی گذر بسر کرنی پڑ رہی ہے جس کا آغاز 2007ء میں کیا گیاتھا۔
پروفیسر مو کہتے ہیں کہ حکومت تنہابوڑھے کنبوں کی مدد تو کررہی ہے مگر امدادی رقم انتہائی ناکافی ہے۔
حالیہ برسوں میں یہ مسئلہ زیادہ نمایاں ہوگیا ہے کیونکہ بہت سے متاثرہ خاندان انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی مشکلات سامنے لارہے ہیں۔ چونکہ اس مسئلے کا زیادہ تر تعلق فی کنبہ ایک بچے کی پابندی سے ہے، اس لیے یہ زیادہ حساس شکل اختیار کررہاہے۔ لیکن دوسری جانب اس مسئلے کے شکار اکثر خاندان میڈیا پر اپنی مشکلات بیان کرتے وقت اپنی شناخت پوشیدہ رکھتے ہیں۔
ایسے والدین کو انتہائی غیر یقینی صورت حال کا سامنا کرنا پڑرہاہے جن کے بچے ان کی زندگیوں میں ہی ہلاک ہوگئے تھے اور وہ حکومت سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ بڑھاپے میں ان کی مدد کی جائے۔
اپنی واحد اولاد سے محروم والدین کے لیے چین میں’ شیدوزہے‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور کچھ عرصے سے یہ لفظ چینی میڈیا اور انٹرنیٹ پر ایک علامت کے طورپر استعمال ہورہاہے اور اس پس منظر میں حکومت کی آبادی پر کنٹرول کی پالیسی پر نکتہ چینی کی جارہی ہے۔
گذشتہ مہینے ایک سو سے زیادہ درخواست گذار بیجنگ میں واقع آبادی پر کنٹرول کے مرکزی دفتر کے سامنے اکھٹے ہوئے ، جو سب اپنی اکلوتی اولاد سے محروم تھے اور یہ مطالبہ کررہے تھے کہ اب حکومت ان کی دیکھ بھال کرے۔
معروف چینی رسالے ’سدرن ویکلی‘ نے، جو ایک عرصے سے اس مسئلے پر آواز اٹھا رہاہے، اپنی حالیہ اشاعت میں لکھا ہے کہ مدد اور کفالت کا مطالبہ کرنے والے ان بوڑھے والدین کو حکومت سے کبھی کوئی جواب نہیں ملا۔
بیجنگ یونیورسٹی کے پروفیسر مو لوانگ زونگ کہتے ہیں کہ وہ اپنی اکلوتی اولاد سے محروم ہوجانے والے خاندانوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی مدد کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ایک بچہ فی گھرانہ کی پالیسی کا چین بھر میں نفاذ 1979ء میں ہواتھا۔
اس پالیسی میں اقلیتوں، دیہاتوں میں رہنے والوں اور بعض دوسرے گروپوں کو ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ماہرین کا تخمینہ ہے کہ فی کنبہ فی بچہ پالیسی کااطلاق صرف 36 فی صد چینی باشندوں پر ہوتا ہے۔ جن کی کل تعداد 48 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
33 برسوں سے نفاذ اس پالیسی کے نتیجے میں ان خاندانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنے اکلوتے بچے سے محروم ہوچکے ہیں اور وہ اپنی عمر کے اس دور میں ہیں کہ ایک اور بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ایسے خاندانوں کی درست تعداد کا تخمینہ لگانا مشکل ہے لیکن 2006ء کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 37 ہزار سے زیادہ ایسی مائیں موجود تھیں جن کے عمریں 49 سال سے زیادہ تھیں اور وہ اپنی اکلوتی اولاد سے محروم ہوچکی تھیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ 2038 تک یہ تعداد بڑھ کر چار گنا ہوسکتی ہے۔
چینی معاشرے میں والدین کا اپنی اکلوتی اولاد سے محروم ہونا ایک معاشی صدمہ بھی ہے کیونکہ وہاں بوڑھے والدین کی دیکھ بھال اور کفالت عموماً اولاد ہی کے ذمے ہوتی ہے۔
چین میں قومی سطح پر پنشن کا نظام 1997ء میں متعارف کرایا گیاتھا، لیکن ابھی تک اس کادائرہ شہری آبادی کے کچھ حصے تک ہی محدود ہے اور دیہی آبادی اس کے فوائد سے محروم ہے۔
زیادہ تر تنہا والدین کو تقریباً 15 ڈالر ماہانہ کی اس امدادی رقم پر بمشکل اپنی گذر بسر کرنی پڑ رہی ہے جس کا آغاز 2007ء میں کیا گیاتھا۔
پروفیسر مو کہتے ہیں کہ حکومت تنہابوڑھے کنبوں کی مدد تو کررہی ہے مگر امدادی رقم انتہائی ناکافی ہے۔
حالیہ برسوں میں یہ مسئلہ زیادہ نمایاں ہوگیا ہے کیونکہ بہت سے متاثرہ خاندان انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی مشکلات سامنے لارہے ہیں۔ چونکہ اس مسئلے کا زیادہ تر تعلق فی کنبہ ایک بچے کی پابندی سے ہے، اس لیے یہ زیادہ حساس شکل اختیار کررہاہے۔ لیکن دوسری جانب اس مسئلے کے شکار اکثر خاندان میڈیا پر اپنی مشکلات بیان کرتے وقت اپنی شناخت پوشیدہ رکھتے ہیں۔