سوڈان کو ریفرینڈم کے بعد نئے چیلنجوں کا سامنا

سوڈان کو ریفرینڈم کے بعد نئے چیلنجوں کا سامنا

ابتدائی نتائج سے ظاہر ہوا ہے کہ جنوبی سوڈان کے لوگوں کی بھاری اکثریت نے شمال سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں۔ سوڈان کی حکومت کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کا احترام کریں گے۔ اب وہ اپنی توجہ افریقہ کے سب سے بڑے ملک کے دو ٹکڑے ہونے سے پیدا ہونے والے عملی مسائل پر مرکوز کر رہے ہیں۔ ا ن مسائل میں نیا آئین تحریر کرنا اور ملک کے متنازعہ تیل پیدا کرنے والے علاقے کی حیثیت کا تعین کرنا شامل ہے ۔

خرطوم میں حکمراں پارٹی کے سیاسی شعبے کے سربراہ، ابراہیم Ghandour کہتے ہیں کہ خرطوم میں سوڈان کی حکومت جنوب کے لوگوں کے فیصلے کو قبول کر لے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ‘‘ہم نے ہمیشہ اتحاد قائم رکھنے کے لیے کام کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، اگر وہ علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو سب سے پہلے ہم ان کے فیصلے کو تسلیم کریں گے’’۔

لندن میں جنوبی سوڈان کے مشن کے نائب سربراہ Paul Malong Akaroکہتے ہیں کہ آزادی کے لیے اتنے طویل عرصے تک لڑنے کے بعد، اب نئی حکومت کو بہت سا کام کرنا ہو گا۔سب سے بڑی چیز لوگوں کی توقعات ہیں جو انھوں نے ہم سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ ہمیں جنوبی سوڈان کی حکومت کو منظم کرنا ہوگا اور آئین تحریر کرنا ہوگا۔

لندن کے Chatham House کے Roger Middleton کہتے ہیں کہ آنے والے مہینوں میں سوڈان میں دونوں حکومتوں کو بہت سی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ان کے مطابق ‘‘عموماً جب ہم سوڈان کے چیلنجوں کی بات کرتے ہیں، تو ہم جنوبی سوڈان کی مشکلات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ ملک خشکی سے گھرا ہوا ہوگا۔ یہ ایک انتہائی غریب ملک ہو گا جس میں بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے ۔ لیکن بعض اوقات ہم شمالی سوڈان کو درپیش مشکلات کا ذکر کرنا بھول جاتےہیں’’۔

Middleton کہتے ہیں کہ ‘‘شمال کو ملک کی 20 فیصد آبادی کے کھو دینے کے سیاسی اثرات سے نمٹنا ہوگا۔ حکومت یہ نہیں چاہے گی کہ ملک ٹوٹنے کا الزام اسے دیا جائے۔ شمال تیل سے ملنے والی آمدنی کی بہت بڑی رقم سے محروم ہو جائے گا۔ انہیں جنوبی سوڈان کے ساتھ تعلقات کی تفصیلات طے کرنا ہوں گی۔ بہت سے چرواہے اپنے مویشی چرانے کے لیے سرحد پار جنوب میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کا کیا ہوگا؟’’

سوڈان کو ریفرینڈم کے بعد نئے چیلنجوں کا سامنا

گلہ بانوں یا خانہ بدوشوں کے مسئلے کا تعلق سوڈان کے ایک ایسے مسئلے سے ہے جو طے نہیں ہوا ہے ۔ یہ مسئلہ ہے تیل سے مالا مال Abyei کے متنازع علاقے کا۔ اس علاقے کے رہنے والوں نے آزادی کے ریفرینڈم میں حصہ نہیں لیا کیوں کہ دونوں فریق یہ طے نہیں کر سکے کہ یہاں کون رہتا ہے ۔ سوڈان کی حکومت چاہتی تھی کہ خانہ بدوش ووٹ ڈالیں، جنوب اس کے لیے تیار نہیں تھا۔ Paul Malong Akaro کہتے ہیں کہ چرواہے اپنے مویشی لے کر آتے ہیں ۔ انہیں یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیئے کہ Abyei کس کے زیرِ انتظام ہو۔ سوڈان کی حکومت کی طرف سے Aldiri Mohamed Ahmed نے Abyei کے معاملے پر مذاکرات کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ Abyei کی ہر چیز میں شمال اور جنوب کا حصہ ہونا چاہیئے۔ ہم تیل میں، اختیارات میں، ان کو برابر کا حصہ دیں گے۔ Akaro کہتے ہیں کہ شمال صرف تیل کی وجہ سے Abyei کے مسئلے کو مشکل بنا رہا ہے ۔ لیکن Ghandouri کا خیال ہے کہ بالآخر تیل کہ وجہ سے ملک متحد رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ‘‘سوڈان میں تیل شمال اور جنوب میں پیدا ہوتا ہے اور کل مقدار کا تقریباً 76 سے 80 فیصد جنوب سے حاصل ہوتا ہے ۔ یہ بات صحیح ہے لیکن سہولتوں کا پورا بنیادی ڈھانچہ شمال میں ہے’’ ۔

خشکی سے گھرے ہوئے جنوب کو اپنا تیل بر آمد کرنے کے لیے شمال پر انحصار کرنا ہوگا۔ لندن کے ایک تحقیقی ادارے، Next Century Foundation کے William Morris کہتے ہیں کہ Abyei جو شمال اور جنوب کے خط تقسیم پر واقع ہے اور جہاں تیل کے بہت سے کنوئیں ہیں، تصادم کی وجہ بن سکتا ہے۔ Abyei کے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کو موقع نہیں مل رہا ہے اور وہاں خطرناک صورت حال پیدا ہو سکتی ہے ۔ اس مسئلے کا حل معلوم کیا جانا ضروری ہے ۔

اس مہینے کے دوران مذاکرات کرنے والے لوگ Abyei پر بات چیت کے لیے پھر ملیں گے۔ دونوں فریقوں کو اُمید ہے کہ 9 جولائی سے پہلے جب جنوب کی طرف سے آزادی کے اعلان کی توقع ہے، اس مسئلے کا کوئی حل نکل آئے گا۔

اس سے پہلے ، کچھ اور مسائل طے کرنا ہوں گے۔ جنوبی سوڈان کے کچھ لوگ جو کئی عشروں کی جنگ کے دوران فرار ہو کر شمال چلے گئے تھے، واپس آنا چاہیں گے ۔ Ghandour کہتے ہیں کہ ہر کیس پر غور کیا جائے گا اور کسی شخص کو قومیت سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

شمال اور جنوب دونوں کو اپنے آئین بدلنے ہوں گے اور انھیں اپنے نئے ملکوں کے مطابق کرنا ہو گا۔ ایک بات پر دونوں کا اتفاق ہے کہ اگلے چند برسوں تک دونوں حکومتیں برقرار رہیں گی تا کہ افریقہ میں ایک انتہائی اہم تبدیلی کو عملی جامہ پہنا سکیں۔