’سپر ارتھ‘ فضا کا پتا لگ گیا: ماہرین

’ایسٹرو فزیکل جرنل‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تحقیق دانوں نے بتایا ہے کہ ‘55 Cancri e’ جو زمین سے تقریباً40 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے، وہاں ’’ہائڈروجن اور ہیلئم کی قابلِ ذکر مقدار‘‘ موجود ہے۔ یہ وہ مواد ہے جو سیارہ تشکیل پانے کے بعد بچ گیا تھا۔ اسے ’ڈائمنڈ پلانیٹ‘ کا بھی نام دیا جاتا ہے

علم ہیئیت جاننے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج کے برعکس ستارے کی گرد گھومنے والے ایک سیارے کی باقیات کی فضا کا پتا لگایا گیا ہے، جسے سائنسی زبان میں ’ایکسو پلانیٹ‘ کہا جاتا ہے۔

’ایسٹرو فزیکل جرنل‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تحقیق دانوں نے بتایا ہے کہ ‘55 Cancri e’ جو زمین سے تقریباً40 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے، وہاں ’’ہائڈروجن اور ہیلئم کی قابلِ ذکر مقدار‘‘ موجود ہے۔ یہ وہ مواد ہے جو سیارہ تشکیل پانے کے بعد بچ گیا تھا۔

اینجلو سیاراس ’یونیورسٹی کالج لندن‘ کے ’پی ایچ ڈی‘ کے طالب علم ہیں، جنھوں نے اِس تجزیے کا طریقہٴ کار تشکیل دینے میں مدد فراہم کی۔ بقول اُن کے، ’’یہ بہت ہی دلچسپ نتیجہ ہے، کیونکہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہمیں واضح نشانیاں ملنے میں کامیابی ہوئی ہے، جن سے ’سپر ارتھ‘ میں موجود فضا میں گیسوں کا پتا لگتا ہے‘‘۔

چونکہ اِس میں مادّے کی مقدار ہمارے کرہٴ ارض کے مقابلے میں تقریباً آٹھ گنا زیادہ ہے، اس لیے ’’55 کینسری‘ کو ’سپر ارتھ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ مشتری اور زحل سے چھوٹا ہے، جہاں گیس کی انتہائی بڑی مقدار موجود ہے۔

پچپن کنسری کو ’ڈائمنڈ پلانیٹ‘ کا بھی نام دیا جاتا ہے، چونکہ اس کا اندرونی حصہ کاربن کی بڑی مقدار سے مالا مال ہے۔

سیارے پر ایک سال 18 گھنٹے کے برابر اور درجہٴ حرارت 2000 ڈگری سیلشئس کے مساوی ہے۔

علم فلکیات کے ماہرین وائیڈ فیلڈ کیمرا 3 یا ’ڈبلیو ایف سی 3‘ کا استعمال کرتے ہوئے، سیارے کی فضا کا تجزیہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ تجزیہ ’ہَبل اسپیس ٹیلی اسکوپ‘ کی مدد سے کیا گیا، جب ماہرین نے یہ ڈیٹا ایک کمپیوٹر میں ڈالا تاکہ ماحول کی مندرجات کے بارے میں ’اسپیکٹرل فنگرپرنٹس‘ (منظرنامے کے نقوش) کا واضح پتا لگ سکے۔

گیونا تنتی ’ہیئیت داں‘ اور پروفیسر ہیں۔ بقول اُن کے، اِس نتیجے سے سپر ارتھ کے ماحول کے بارے میں پہلی پرکھ سامنے آئی ہے۔ اب ہمارے پاس واضح نشانیاں موجود ہیں کہ اس وقت یہ سیارہ کس طرح دکھتا ہے، یہ کس طرح بنا ہوگا اور نشو نما پائی ہوگی، اور اس کے 55 کینسری اور دیگر سپر ارتھس کے بارے میں اہم پوشیدہ راز سے پردہ اٹھ گیا ہے‘‘۔

ہائڈروجن اور ہیلئم گیس کے علاوہ، علم ہیئیت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے ہائڈروجن سائنائیڈ کی نمایاں خواص کا پتا لگایا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ فضا کاربن سے لبریز ہے۔

سنہ 1988میں ہونے والی تحقیق کے مطابق، کائنات میں 2000 سے زائد ’ایکسو پلانیٹ‘ موجود ہیں؛ جب کہ اس سے قبل، یہ تعداد 1321 تھی۔ 16 فروری 2016ء کو سیاروں کے نظاموں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کائنات میں 507 ’کثیر جہتی سیاروں کے نظام‘ اپنا کام کر رہے ہیں۔