امریکی خلائی ادارے، ناسا کا کہنا ہے کہ کرہ زمین جیسے سیاروں کی طرح کے ممکنہ 92 فی صد سیاروں کا جنم لینا ابھی باقی ہے۔
' ہَبل اسپیس ٹیلی اسکوپ' اور 'کیپلر آبزرویٹری' کے ڈیٹا کو استعمال کرنے والے ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے اندازاً 10 ارب برس پیچھے کے منظرنامے پر نگاہ ڈالی ہے، جب ستارے ابھی تیزی کے ساتھ بن رہے تھے۔ اِس منظر کو دیکھتے ہوئے، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا نظام شمسی 4.6 ارب برس قدیم ہے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ستارے پیدا ہونے کا عمل سست ضرور ہوا ہے۔ تاہم، ہیلئم اور ہائڈروجن کی کافی مقدار باقی ہے، جس سے یہ بات یقینی ہے کہ 'آئندہ بڑی طویل مدت تک' ستارے اور سیارے بننے کا سلسلہ جاری رہےگا۔
میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں قائم 'اسپیس ٹیلی سکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ' کی محقق، مولی پیپلز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ، '(بگ بینگ کے بعد) ابھی کافی مواد باقی ہے جس سے، 'ملکی وے' اور اِس سے بھی آگے، مستقبل میں مزید سیارے بنتے رہیں گے'۔
وقت کا عنصر نئے ستاروں اور سیاروں کے بننے کے لیے سازگار ہے۔
ناسا نے کہا ہے کہ کائنات کا آخری ستارہ، آج سے 100 ٹرلین سال بعد وجود کھو دے گا۔
ہیئت دانوں کے خیال میں ہمارے اپنے 'ملکی وے' کی کہکشاں زمین کی سائز کے ایک ارب سیاروں پر مشتمل ہے، جس کا کافی حصہ پتھریلا ہے۔ اِس میں سے کتنا حصہ 'گولڈی لوکس زون' میں ہے۔۔ جِن کے ستارے سے وہ فاصلہ جہاں نمی پانی میں بدلتی ہے، فاصلہ کتنا ہے، اس کا علم نہیں ہے۔
بتایا گیا ہے کہ جتنی کائنات کا اب تک مشاہدہ کیا گیا ہے اُس کے کرہ ارض کی طرح کے ممکنہ سیاروں کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے اُنھیں 100 ارب سے ضرب دی جائے، اتنی کہکشائیں بنتی ہیں۔
یہ تحقیق 20 اکتوبر کو تحقیقی رسالے، ماہنامہ 'نوٹیسز آف دی رائل اسٹرونومیکل سوسائٹی' میں شائع ہوچکی ہے۔